رسائی کے لنکس

کروڑوں بچوں کا اسکول نہ جانا پوری نسل کا بحران ہے: اقوامِ متحدہ


کرونا وائرس نے کلاس روم خالی کر دیے ہیں۔
کرونا وائرس نے کلاس روم خالی کر دیے ہیں۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا سے تعلیمی اداروں کی بندش نے ایک پوری نسل کو بحران سے دو چار کر دیا ہے۔

انہوں نے یہ بات منگل کو اقوامِ متحدہ کی ایک نئی مہم ’ہمارا مستقبل بچائیں‘ کے آغاز کے موقع پر ایک ویڈیو کانفرنس کے دوران کہی۔

اس مہم کا مقصد کرونا وائرس کے بعد کی دنیا میں رسمی تعلیم کی بحالی کی جانب توجہ مبذول کرانا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ اس وقت دنیا کے 160 کے لگ بھگ ممالک میں ایک ارب سے زائد بچے رسمی تعلیم سے محروم ہیں جب کہ کم سے کم چار کروڑ بچے پری اسکول کی تعلیم شروع نہیں کر پائے۔

انہوں نے کہا کہ معذور طلبا، اقلیتوں اور خطرے سے دو چار برادریوں، پناہ گزینوں اور بے دخل افراد کے بچوں کیلئے تعلیم میں پیچھے رہ جانے کا سنگین خطرہ موجود ہے۔

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اس وقت دنیا بھر میں 25 کروڑ طلبہ اسکول جانے سے محروم ہیں اور یہ ایک بڑا تعلیمی بحران ہے۔ انہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے خاتمے کے بعد طالب علموں کی اسکولوں میں واپسی اولین ترجیح ہونی چاہئیے۔

گٹریس کا کہنا تھا کہ اب ہمیں ایک پوری نسل کی تباہی کا سامنا ہے، جس سے انسانی قابلیت ، صلاحیتیں اور برسوں سے حاصل کی گئی ترقی ضائع ہو سکتی ہے، اور اس سے عدم مساوات بدتر شکل اختیار کر سکتی ہے۔

اینتونیو گٹریس کا کہنا تھا جب کرونا وائرس کی وبا ایک دفعہ قابو میں آجائے، تو پھر ایسے طالب علموں کو واپس کمرہ جماعت میں بھیجنا پہلی ترجیح ہونی چاہئیے۔

انہوں نے تعلیم کے شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری پر بھی زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی وبا سے پہلے ہی غریب اور ترقی پذیر ملکوں کو سالانہ ایک اعشاریہ پانچ ٹریلین ڈالر فنڈنگ کی کمی کا سامنا تھا، جس میں ڈیجیٹل تعلیم اور بنیادی ڈھانچہ میں سرمایہ کاری بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ تعلیم کے سلسلے میں کی جانے والی کوششوں کا رخ ان کی جانب ہونا چاہئے، جن کے پیچھے رہ جانے کااندیشہ ہے۔

جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کرونا مریضوں کی تعداد اٹھارہ اعشاریہ دو ملین سے تجاوز کر چکی ہے اور اس سے ہونے والی اموات بھی سات لاکھ سے بڑھ چکی ہیں۔

عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر ٹیدروس ایڈہینم نے پیر کے روز میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگرچہ متعدد ویکسینز اپنے حتمی تجربات کے دور سے گزر رہی ہیں، تمام ممالک کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود احتیاطی تدابیر اختیار کریں، جن میں ٹیسٹوں کی تعداد میں اضافہ، سماجی فاصلہ برقرار رکھنا اور ماسک پہننے کی پابندی شامل ہیں۔

آسٹریلیا نے اپنے دوسرے بڑے شہر میلبورن میں کم اہمیت کے کاروبار ڈیڑھ ماہ تک بند کرنے کا حکم دیا ہے تا کہ عالمی وبا کو قابو میں کیا جا سکے۔ آسٹریلیا کے صحت سے متعلق حکام کا کہنا ہے کہ پیر کے روز، ریاست وکٹوریا میں، جہاں میلبورن ہے، کرونا وائرس سے متاثرہ 429 نئے مریض سامنے آئے، 13 اموات ہوئی ہیں۔

ریاست وکٹوریا کے حکام نے منگل کے روز سے فوج کے مزید پانچ سو اہل کار تعینات کئے ہیں، جو کہ مقامی حکام کی جانب سے لوگوں کے گھروں پر رہنے کے احکامات کے نفاذ میں مدد کریں گے۔ اِن احکامات کی خلاف ورزی پر ساڑھے تین ہزار ڈالر تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

دنیا میں کرونا وائرس کے تقریباً ایک چوتھائی مریض یہاں امریکہ میں موجود ہیں۔ پیر کے روز وائٹ ہاؤس اور کانگریس میں موجود ڈیموکریٹ ارکان کے درمیان، بے روز گار امریکیوں کیلئے، نئے امدادی پیکج پر کوئی نیا سمجھوتہ نہیں ہوا۔

صدر ٹرمپ نے پیر کے روز میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مستقل لاک ڈاؤن کی پالیسی کوئی پائیدار حل نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیگر ملکوں میں لاک ڈاؤن کے بعد بھی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں کرونا وائرس ریسپانس کی کو آرڈینیٹر ڈاکٹر ڈیبرا برکس کے اس بیان کو مسترد کیا تھا کہ امریکہ میں کرونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہو گئی ہے۔

ادھر امریکہ میں متعدی امراض کے چوٹی کے ماہر اور انتظامیہ کی کرونا وائرس کی ٹاسک فورس کے رکن، ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی نے ڈاکٹر برکس کے ہمراہ ان کے بیان کی تائید کی۔

XS
SM
MD
LG