رسائی کے لنکس

کیا امریکہ میں حفاظتی طبی سامان کی قلت چین کو اس کی بھاری برآمد سے ہوئی؟


کرونا وائرس سے بچنے کے لیے ماسک تیار کیے جا رہے ہیں۔
کرونا وائرس سے بچنے کے لیے ماسک تیار کیے جا رہے ہیں۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق لاکھوں ڈالر مالیت کے ماسک اور طبی حفاظتی سامان ایک ایسے وقت میں امریکہ سے چین کو برآمد کر دیا گیا، جب کرونا وائرس کے امریکہ اور دنیا کے لیے خطرات بڑھ رہے تھے۔

اخبار کے مطابق وائٹ ہاؤس اس بات سے غافل رہا کہ کہ کرونا وائرس امریکہ اور پوری دنیا میں پھیل سکتا ہے اور ان چیزوں کی امریکہ کے اندر ضرورت پڑ سکتی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ یہ اجازت ٹرمپ انتظامیہ کی اس ناکامی کا اظہار ہے کہ اس نے اس عالم گیر وبا کے خطرے کو نہیں بھانپا اور نہ اس کے لیے مناسب تیاری کی۔

اخبار واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے اس نے یہ اطلاعات حکومت کے اندرونی اقتصادی جائزہ مواد سے حاصل کیں ہیں۔ اخبار کے مطابق جنوری اور فروری میں اس طرح کے سامان کی برآمد ایک سال قبل کے انہیں مہینوں کے مقابلے میں تقریباً ایک ہزار گنا زیادہ تھی۔ یعنی یہ برآمدات 14 لاکھ ڈالر سے بڑھ کر ایک کروڑ 76 لاکھ ڈالر پر پہنچ گئیں۔

فروری کے شروع میں امریکی محکمہ خارجہ نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ نے عطیہ کردہ 17 ٹن طبی سامان چین روانہ کیا ہے۔ یہ وہی سامان ہے جس کی امریکی طبی عملے کو اس وقت شدید ضروت پڑی جب ملک میں کرونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہوا۔ چین بھیجے جانے والے سامان میں ماسک، ڈاکٹروں کے گاؤن اور تنفس بحال کرنے کے آلات شامل تھے۔

اخبار کے مطابق امریکی محکمہ تجارت نے ایک پمفلٹ شائع کیا تھا جس میں امریکی تجارتی کمپنیوں کو بتایا گیا تھا کہ اہم طبی سامان چین اور ہانگ کانگ کے ہاتھ کس طرح فروخت کیا جاسکتا ہے۔ بعد میں 4 مارچ کو یہ تجارت بند کر دی گئی۔

اخبار کا کہنا ہے وائٹ ہاؤس کے چند حکام یہ سمجھتے ہیں کی چین نے جان بوجھ کر بھاری مقدار میں اس طرح کا طبی سامان درآمد کیا تھا۔

اخبار کے مطابق بعد میں امریکہ کو اس وقت ٹسٹنگ کٹس اور دیگر طبی حفاظتی سامان کی قلت کا سامنا کرنا پڑا جب ملک میں وائرس تیزی سے پھیلنا شروع ہوا۔

چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ اس نے اس طرح کے ضروری طبی سامان کی ذخیرہ اندوزی کی۔ اخبار کے مطابق چین نے 120 ملکوں اور چار بین الاقوامی اداروں کو سرجیکل ماسک اور دیگر طبی سامان فراہم کیا۔

امریکی حکومت کی جانب سے ابھی تک اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG