کرونا وائرس اور سماجی فاصلہ، مرکزی لندن میں کاروں کا داخلہ بند
لندن کے مرکزی تجارتی علاقے'سکوئر میل' میں کچھ سڑکوں پر کاروں کی آمد و رفت بند کی جا رہی ہے، تاکہ پیدل چلنے والوں اور سائیکل سواروں کے لیے مزید جگہ بنائی جا سکے اور وہ سماجی فاصلہ قائم رکھ کر وہاں چل پھر سکیں۔
اس فیصلے کا مقصد لاک ڈاؤن کی پابندیاں اٹھنے کے بعد لندن کے اس اہم مصروف علاقے میں زندگی کے معمولات بحال کرنے میں مدد دینا ہے۔
برطانیہ نے اس ہفتے لاک ڈاؤن کی کئی پابندیاں نرم کر دی ہیں، لیکن لوگوں سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو افراد اپنے گھروں سے کام کر سکتے ہیں، انہیں گھر سے ہی کام جاری رکھنا چاہیے۔ برطانیہ کے مالیاتی شعبے کے زیادہ تر کارکن کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد مارچ کے مہینے سے ہی اپنے گھروں سے کام کر رہے ہیں۔
برطانیہ کا مرکزی بینک، بینک آف انگلینڈ، لندن اسٹاک ایکس چینج اور دیگر بہت سے مالیاتی اداروں کے دفاتر لندن کے مرکزی حصے سکوئرمیل میں واقع ہیں۔ اس حصے میں کام کرنے والوں کی تعداد کا تخمینہ سوا پانچ لاکھ ہے۔ یہاں فٹ پاتھ اور پیدل چلنے کے راستے اتنے تنگ ہیں کہ ایک دوسرے کے درمیان سماجی فاصلہ قائم رکھنا ممکن نہیں ہے۔
کونسلرز آف لندن سٹی کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پیدل چلنے والوں کے راستوں کو کشادہ کرنے کی تجویز کی منظوری دی گئی ہے جس کے تحت کچھ سڑکوں کو کاروباری اوقات میں کاروں کے لیے مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا۔
'امریکی انتظامیہ کے پاس ویکسین کی تیاری اور تقسیم کا کوئی منصوبہ نہیں'
امریکہ کے محکمہ صحت کے ایک اعلیٰ افسر نے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ کے پاس کرونا وائرس ویکیسن دستیاب ہونے کے بعد اس کی پیداوار یا منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ اگر رہنماؤں نے فیصلہ کن کردار ادا نہ کیا تو امریکی قوم کے لیے آئندہ موسم سرما تاریک ترین ثابت ہوسکتا ہے، جس میں بہت زیادہ کیسز اور اموات ہوں گی۔
ویکسین کے ماہر رک برائٹ نے یہ بیان کانگریس کی ایک قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں دیا۔ وہ کچھ عرصہ پہلے تک محکمہ صحت کے جراثیمی دفاع سے متعلق ادارے کے سربراہ تھے۔ لیکن، ٹرمپ انتظامیہ کو وبا کی تیاری کے لیے خبردار کرنے پر انھیں عہدے سے ہٹادیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ انتظامیہ کے پاس ویکسین بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور یہ پریشان کن بات ہے۔ ان سے سوال کیا گیا کہ کیا قانون سازوں کو تشویش ہونی چاہیے تو انھوں نے کہا، ''یقینی طور پر''۔
رک برائٹ کا کہنا تھا کہ ملک کو ایک ایسے منصوبے کی ضرورت ہے جس کے تحت ویکسین بننے کے بعد اس کی کروڑوں کی تعداد میں پیداوار اور منصفانہ طور پر عوام کو فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔
انھوں نے کہا کہ ایک اینٹی وائرل دوا کرونا وائرس کے مریضوں کے لیے مفید ثابت ہوئی ہے۔ لیکن اس کی تقسیم جس طرح ہوئی ہے اس سے وہ مطمئن نہیں۔ اسپتالوں کے دواخانوں نے بتایا ہے کہ انھیں محدود تعداد میں فراہمی ہوئی ہے اور اس میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپ میں کرونا وائرس کے دو پازیٹو کیس
بنگلہ دیش کے جنوبی حصے میں قائم پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں کرونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس ملک میں دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا کیمپوں میں رہ رہے ہیں جو میانمر کی فوج کے ظلم و تشدد سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آ گئے تھے۔ جمعرات کے روز ایک عہدے دار نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ گنجان آباد کیمپوں میں مہلک وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے۔
بنگلہ دیش کے ایک سینئر عہدے دار اور اقوام متحدہ کے ایک ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ روہنگیا نسل کے ایک پناہ گزین اور ایک دوسرے شخص میں کوویڈ 19 کا ٹیسٹ پازیٹو آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس کیمپ میں کرونا کا پہلا تصدیق شدہ کیس ہے۔ یہ کیمپ دنیا کے کسی بھی گنجان آباد شہر سے زیادہ گنجان ہے، جس کی وجہ سے یہاں ملک وائرس پھیلنے کا خطرہ کہیں زیادہ ہے۔
پناہ گزینوں کی مدد اور بحالی کے کاموں کے کوآرڈی نیٹر محب عالم تعلقدار نے خبر رساں ادارے، رائٹرز کو بتایا کہ پازیٹو ٹیسٹ کے بعد دونوں افراد کو قرنطینہ کے مرکز میں بھیج دیا گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان نے بتایا کہ دوسرا شخص ایک بنگالی ہے جو پناہ گزیں کیمپ کے قریب واقع آبادی میں رہتا ہے۔
- By مدثرہ منظر
کرونا وائرس کی ویکسین کب تک متوقع؟
کرونا وائرس کے پھیلتے ہی لوگوں میں یہ بے چینی پائی جانے لگی کہ اس وائرس کے خلاف کوئی دوا، کوئی ویکسین کب آئے گی؟ مگر دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں بدلتے گئے اور کوئی دوا، کوئی ویکسین سامنے نہ آسکی۔
تاہم، دنیا بھر میں سائنسدان مسلسل اس کوشش میں لگے ہیں کہ وہ اس وائرس کے خلاف جلد کوئی ویکسین تیار کر سکیں۔
امریکہ میں بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیاں اس پر بھرپور انداز میں کام کر رہی ہیں، مگر کہا یہی جا رہا ہے کہ کوئی ویکسین اس سال کے آخر تک شاید ہی مارکیٹ میں آسکے
بلکہ ایک اندازہ تو یہ بھی ہے کہ کسی ویکسین کے مارکیٹ میں لائے جانے سے پہلے اتنے مراحل ہیں اور اتنا سرمایہ درکار ہے کہ شاید اس میں ایک عشرہ لگے۔
اسی دوران امریکہ میں ایف ڈی اے یا فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی نےایک ایسی دوا کی منظوری دی ہے جو اینٹی وائرل ہے اور اب کووڈ 19 کے مریضوں کو دی جا رہی ہے۔
ریمڈیسیوئیر نامی یہ دوا ہسپتال میں داخل مریضوں کو دی جا رہی ہے۔ اسی کے ساتھ محتاط انداز میں ملیریا سے بچاؤ کی دوا ہائیڈروکسی کلورو کوئین بھی استعمال کی جا رہی ہے۔