رسائی کے لنکس

کیا کیجری وال مودی کا متبادل بن سکتے ہیں؟


عام آدمی پارٹی کے سربراہ، کیجری وال۔
عام آدمی پارٹی کے سربراہ، کیجری وال۔

بھارت کے دارالحکومت دہلی میں عام آدمی پارٹی کی زبردست کامیابی کے بعد یہ بحث تیز ہو گئی ہے آیا پارٹی قومی سطح پر انتخابات میں حصہ لے گی۔ عام آدمی پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی دوسری ریاستوں میں جانے کے بارے میں غور کر رہی ہے۔

انتخابات میں شاندار کامیابی کے بعد کیجری وال نے اپنی پوزیشن کافی مستحکم کر لی ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ بحث بھی تیز ہو گئی ہے کہ کیا وہ آگے چل کر ملک کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں۔

اس بارے میں اخبارات میں مضامین شائع ہو رہے ہیں اور نیوز چینلوں اور سوشل میڈیا میں مباحثے ہو رہے ہیں۔

انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد فوری طور پر پارٹی دفتر میں کیجری وال کا ایک بڑا پوسٹر چسپاں کیا گیا اور کیپشن لگایا گیا کہ ’عوام قومی سطح پر پارٹی سے وابستہ ہوں‘۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ کیجری وال کی پارٹی دیگر ریاستوں میں بھی اسمبلی انتخابات لڑے گی اور قومی سطح پر ایک بار پھر پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے گی۔

عام آدمی پارٹی کے اقلیتی شعبے کے سابق صدر اور پارٹی کے سینئر رہنما عرفان اللہ خان وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہتے ہیں کہ شروع سے ہی پارٹی کا نیشنل کیرکٹر رہا ہے۔ اس نے 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں چار سو سے زائد امیدوار اتارے تھے۔

ان کے بقول، ہر ریاست میں پارٹی کا کیڈر ہے جو پارٹی کی بنیاد مضبوط کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ریاست پنجاب میں وہ دوسری بڑی پارٹی ہے۔ وہاں اس کے ارکان اسمبلی کے علاوہ ارکان پارلیمان بھی ہیں۔

عرفان اللہ خان کے مطابق، اس وقت ملک کی مختلف ریاستوں سے یہ آواز اٹھ رہی ہے کہ عام آدمی پارٹی ملکی سطح پر کام کرے اور کیجری وال وزیر اعظم نریندر مودی کا متبادل بننے کی کوشش کریں۔

وہ بتاتے ہیں کہ پارٹی کے اندر اس بات پر غور و خوض ہو رہا ہے کہ اب دہلی سے باہر بھی نکلنا چاہیے اور پورے ملک میں الیکشن لڑنا چاہیے، کیونکہ اس وقت مرکز میں جو قیادت حکومت کر رہی ہے اس سے ملک کا ایک بہت بڑا طبقہ خوش نہیں ہے۔ لہٰذا، کیجری وال ایک متبادل کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ پارٹی کا یہ بھی خیال ہے کہ 2024 میں پارٹی کو پوری تیاری کے ساتھ پارلیمانی انتخاب لڑنا چاہیے۔

ایک سینئر تجزیہ کار اور دہلی یونیورسٹی کے استاد پروفیسر اپوروانند وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام آدمی پارٹی کا نیشنل کیرکٹر ہے۔ لیکن، بھارتیہ جنتا پارٹی نے جس قسم کی سیاست کو فروغ دیا ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لیے کیجری وال کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔

ایک اور تجزیہ کار ہرتوش سنگھ بل کہتے ہیں کہ اس سے قبل دہلی میں الیکشن جیتنے کے بعد جب عام آدمی پارٹی دہلی سے باہر نکلی تھی تو اس نے کافی غلطیاں کی تھیں۔ خاص طور پر پنجاب ایسی ریاست تھی کہ وہاں پارٹی کے بہت امکانات تھے۔ لیکن، وہاں بھی اس نے بہت بڑی غلطی کی جس سے وہ ابھی تک باہر نہیں آسکی ہے۔

ہرتوش بل کے مطابق، پارٹی نے پنجاب میں اپنی جو بنیاد کھوئی ہے اس کو دوبارہ حاصل کرنے میں وقت لگے گا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ پارٹی اس بارے میں کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ریاستی انتخابات میں مقامی ایشوز کی بنیاد پر ووٹ دیے جاتے ہیں اور بی جے پی ریاستوں میں مسلسل ہارتی جا رہی ہے۔ لیکن، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قومی سطح پر صورت حال میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔

ہرتوش سنگھ بل کا مزید کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ مایاوتی، اکھلیش یادو اور ممتا بنرجی اروند کیجری وال کے ساتھ مل کر کوئی محاذ بنا لیں۔ لیکن، اگر ایسا کوئی محاذ بنا بھی تو اس کی قیادت کون کرے گا اس پر لڑائی شروع ہو جائے گی۔

اروند کیجری وال نے پارٹی بنانے کے بعد 2013 میں دہلی کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے کا منصوبہ بنایا تھا۔ 2017 میں پارٹی نے پنجاب میں اپنے پاؤں پھیلائے اور گجرات، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں بھی پارٹی نے اپنی حیثیت درج کرائی لیکن حالات کیجری وال کے منصوبے کے مطابق نہیں بنے اور وہ مودی کا متبادل نہیں بن سکے۔

انھوں نے 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں وارانسی سے وزیر اعظم مودی کے خلاف الیکشن لڑا تھا جہاں انھیں خاصے ووٹ ملے تھے۔ لیکن، بہر حال وہ مودی سے تین لاکھ ووٹوں سے ہار گئے تھے۔

اس کے بعد، انھوں نے دہلی سے باہر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ اپنی ساری توجہ دہلی میں ترقیاتی کاموں پر مرکوز کر دی۔

کیجری وال نے اپنی اسٹریٹجی میں بھی تبدیلی کی۔ اس سے قبل وہ مرکز کی مودی حکومت سے براہ راست ٹکر لیا کرتے تھے اور بار بار یہ الزام لگاتے تھے کہ مودی حکومت ان کو کام نہیں کرنے دے رہی ہے۔

یہ بات درست بھی تھی۔ مرکزی حکومت دہلی کے لیفٹننٹ گورنر کے ذریعے ان کے کاموں میں رخنہ اندازی کرتی رہی ہے۔ لیکن، پھر کیجری وال نے اپنی حکمت عملی بدلی اور مودی کے خلاف بیان بازی بند کر دی۔

موجودہ انتخابات میں بھی انھوں نے مودی کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا؛ بلکہ بی جے پی کے خلاف بھی جارحانہ بیان بازی سے پرہیز کی۔ انھوں نے صرف اپنے کاموں پر فوکس کیا اور عوام سے کہا کہ اگر انھوں نے کام کیا ہے تو انھیں ووٹ دیں ورنہ نہ دیں۔

اب جبکہ وہ تیسری بار کامیاب ہوئے ہیں، وزیر اعظم مودی نے ان کو مبارکباد پیش کی ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ عام آدمی پارٹی حکومت کے پانچ سال مودی حکومت سے ٹکراؤ کے بغیر مکمل ہوں گے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG