رسائی کے لنکس

مشال قتل کیس کے ایک مجرم کو سزائے موت، پانچ کو عمر قید


مشال خان کی فائل فوٹو
مشال خان کی فائل فوٹو

ایبٹ آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے گزشتہ سال توہینِ مذہب کے الزام میں قتل ہونے والے طالبِ علم مشال خان کے مقدمے میں ایک مجرم کو سزائے موت جب کہ پانچ کو 25، 25 سال قید کی سزا سنائی ہے۔

بدھ کی دوپہر ہری پور سینٹرل جیل میں سنائے جانے والے فیصلے میں عدالت نے 25 مجرموں کو قتل میں معاونت پر چار، چار سال قید کی سزا سنائی جب کہ 26 ملزمان کو عدم ثبوت پر بری کردیا۔

فیصلہ سنائے 1جانے کے موقع پر مشال خان کے والد اقبال خان، مقدمے کا سامنا کرنے والے تمام 57 ملزمان اور دونوں فریقین کے وکلا بھی عدالت میں موجود تھے۔

استغاثہ کے وکلا کے مطابق سزائے موت پانے والے مرکزی ملزم عمران نے دورانِ تفتیش اور مقدمے کی سماعت کے دوران بھی اعترافِ جرم کیا تھا۔

عدالت نے عمران کو ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے جس کی عدم ادائیگی پر اسے چھ ماہ قید بھگتنا پڑے گی۔

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک کے مشیر شوکت یوسف زئی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت مقدمے میں نامزد تمام 26 ملزمان کی بریت کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرے گی۔

مشال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے۔
مشال خان کے بہیمانہ قتل کے خلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبۂ ابلاغ عامہ کے 23 سالہ طالبِ علم مشال خان کو اس کے درجنوں ساتھی طلبہ اور یونیورسٹی کے ملازمین نے گزشتہ سال 13 اپریل کو توہینِ مذہب کے الزام میں بری طرح تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد فائرنگ کرکے قتل کر دیا تھا۔

اس قتل کی ملک بھر کے مختلف حلقوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ بین الاقوامی سطح پر بھی شدید مذمت کی گئی تھی۔

واقعے کی تحقیقات کے لیے تشکیل دی گئی کمیٹی نے بعد ازاں اپنی رپورٹ میں مشال پر توہینِ مذہب کے الزم کو غلط قرار دیا تھا۔

بدھ کو مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر ہری پور سینٹرل جیل میں انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے اور جیل کے باہر پولیس کے علاوہ فوج کے اہلکار بھی تعینات تھے۔

حکام نے حفاظتی اقدام کے طور پر بدھ کو ہری پور جیل میں موجود قیدیوں کی تمام ملاقاتیں بھی منسوخ کردی تھیں۔

عدالتی فیصلے کے موقع پر صوابی میں مشال خان کے آبائی گھر اور ان کی قبر پر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔

مردان کی خان عبدالولی خان یونیورسٹی کا ایک منظر جہاں گزشتہ سال مشال خان کو قتل کیا گیا تھا۔
مردان کی خان عبدالولی خان یونیورسٹی کا ایک منظر جہاں گزشتہ سال مشال خان کو قتل کیا گیا تھا۔

مشال خان کے والد نے مردان میں سکیورٹی خطرات کے پیشِ نظر مقدمے کی پیروی سے معذوری ظاہر کرتے ہوئے گزشتہ سال پشاور ہائی کورٹ سے مقدمے کی سماعت کہیں اور منتقل کرنے کی درخواست کی تھی۔

مقتول کے والد کی درخواست پر ہائی کورٹ کے حکم پر ایبٹ آباد کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے ہری پور سینٹرل جیل کے احاطے میں مقدمے کی سماعت گزشتہ سال ستمبر میں شروع کی تھی جو گزشتہ ماہ مکمل ہوئی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران 57 ملزمان اور 50 سے زیادہ گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے تھے جبکہ اس دوران 57 ملزمان کے وکلا نے بھی گواہوں پر جرح کی اور ملزمان کی صفائی میں دلائل پیش کیے تھے۔

مقدمے کی کارروائی پانچ ماہ تک جاری رہنے کے بعد 27 جنوری کو مکمل ہوئی تھی جس کے بعد عدالت کے جج فضلِ سبحان نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

مشال خان کے والد کی پیروی پانچ وکلا پر مشتمل ایک پینل نے کی تھی۔ پینل میں شامل ایک وکیل فضل خان کے مطابق 57 ملزمان میں سے لگ بھگ ایک درجن نے جزوی طور پر اپنے جرم یا جرم میں شریک ہونے کا اعتراف کیا تھا۔

اس مقدمے میں 62 ملزمان نامزد ہیں جن میں سے 57 افراد کے خلاف ہری پور میں مقدمہ چلایا گیا جب کہ ایک ملزم کو پولیس نے گزشتہ ماہ ہی گرفتار کیا ہے۔

مشال خان کو قتل کرنے والے چار مرکزی ملزم ابھی تک مفرور ہیں جن میں صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والا ایک تحصیل کونسلر بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG