رسائی کے لنکس

ایگزیکٹ اسکینڈل: ہائی کورٹس کو دو سے تین ہفتوں میں فیصلہ سنانے کا حکم


فائل فوٹو
فائل فوٹو

دورانِ سماعت ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ پانچ ہزار ڈالرز کی ادائیگی پر ایک گھنٹے میں ایگزیکٹ سے ڈگری مل جاتی تھی۔

سپریم کورٹ نے ایگزیکٹ جعلی ڈگری از خود نوٹس کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی ایف آئی آر میں نامزد شعیب شیخ سمیت دیگر سات ملزمان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم ملزمان کے بیرونِ ملک نہ جانے کی یقین دہانی پر کچھ دیر بعد واپس لے لیا۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ ایگزیکٹ سے متعلق زیر التوا اپیلوں پر بینچ تشکیل دے کر مقدمے کا فیصلہ 15 دن میں کرے اور مقدمے کی سماعت کا آغاز پیر سے کرے۔

عدالتی حکم نامے میں ایگزیکٹ کے خلاف اسلام آباد میں درج مقدمہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کو 22 فروری سے مقدمے کی سماعت کرنے اور تین ہفتوں میں فیصلہ سنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

عدالت نے ایف آئی اے کو بھی ایگزیکٹ کے خلاف پشاور میں درج مقدمے میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے فیصلے کی فائل طلب کرلی ہے۔ عدالت نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ اگر تمام ملزمان عدالت میں پیش نہیں ہوتے تو ان کی ضمانت کی منسوخی کی درخواست ٹرائل کورٹ کو دیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے جمعے کو ایگزیکٹ جعلی ڈگری از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ اسلام آباد میں درج مقدمے میں ملزم بری ہو چکے ہیں۔ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔

رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے بتایا کہ اپیل 22 فروری کو سماعت کے لیے مقرر کردی گئی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ کیس سنیں گے۔

چیف جسٹس نے رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو ہدایت کی کہ جسٹس اطہر من اللہ کے ساتھ جسٹس گل حسن کو بھی شامل کریں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ تین ہفتوں میں فیصلہ کرے۔ افواہیں تھیں کہ جج نے ملزمان ضمانت کے لیے پیسے لیے۔ اس جج کا نام کیا ہے اور اس کے خلاف کیا کارروائی ہورہی ہے؟

رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ نے بتایا کہ جج کا نام پرویز القادر میمن ہے اور انہیں معطل کردیا گیا ہے۔

ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی کیس کراچی میں ہے جس پر چیف جسٹس نے رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ سے استفسار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں مقدمات زیرِ التوا کیوں ہیں؟

انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کو آئندہ ہفتے دو رکنی بینچ تشکیل دینے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹ مقدمات کا 15 دن میں فیصلہ کریں۔

سپریم کورٹ نے شعیب شیخ سمیت سات ملزمان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ ملزمان تعاون نہیں کرتے تو استغاثہ ضمانت منسوخی کی درخواست دے۔ ٹرائل کورٹ دو ہفتوں میں ضمانت منسوخی کا فیصلہ کرے۔ ماتحت عدلیہ اور ہائی کورٹ سے ملزمان کا عدم تعاون برداشت نہیں کریں گے۔ یہ میرے ملک کے لیے شرمندگی کا معاملہ ہے۔ اپنی قوم کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔

چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ کیا ایگزیکٹ ایک کمپنی ہے اور کب سے سکیورٹیز اینڈ ایکچینج کمیشن (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ ہے؟ ڈی جی ایف آئی اے نے بتایا کہ جولائی 2006ء سے پہلے سے یہ کمپنی رجسٹرڈ ہے اور اس کا ہیڈ آفس کراچی میں میں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ڈی جی ایف آئی اے سے سوال کیا کہ ایگزیکٹ کا کاروبار کیا ہے؟ ڈی جی ایف آئی نے جواب دیا کہ سافٹ ویئر کی برآمدات کا بزنس ظاہر کیا گیا ہے لیکن ایگزیکٹ کے 10 کاروباری یونٹ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 70 فی صد ریونیو آن لائن یونیورسٹی سے آتا ہے اور ایگزیکٹ کی 330 یونیورسٹیاں تھیں۔

اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے الحاق ہے؟ ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ یونیورسٹوں کا صرف ویب پیج تھا۔ ایگزیکٹ کا کسی یونیورسٹی سے الحاق نہیں تھا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کیمپس نہیں تو کلاس رومز بھی نہیں ہوں گے۔ بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ پانچ ہزار ڈالرز کی ادائیگی پر ایک گھنٹے میں ایگزیکٹ سے ڈگری مل جاتی تھی۔

ڈی جی ایف آئی اے نے مزید بتایا کہ تجربے کی بنیاد پر ایگزیکٹ سے ڈگری مل جاتی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ میرا قانون کا تجربہ ہے مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری مل سکتی ہے؟ بشیر میمن نے بتایا کہ تجربے کی بنیاد پر آپ کو قانون اور انگلش کی ڈگری مل سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میری انگلش اتنی اچھی نہیں ہے۔

ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت بتایا کہ ایگزیکٹ کا اپنا پلیٹ فارم ہے جو ایکری ڈیٹیشن بھی کرتا ہے۔ بشیر میمن کے جواب پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پوچھا کہ یہ کمپنی ایکری ڈیٹیشن کیسے کرسکتی ہے؟ یونیورسٹیاں تو کسی قانون کے تحت بنتی ہیں۔

ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ویب پیج بنا کر ایکری ڈیٹیشن شروع کردی جاتی تھی اور یہ کام 2006ء سے 2015ء تک ہوتا رہا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ درست ہے تو لوگوں کے ساتھ فراڈ ہوا۔ جب میڈیا پر خبریں آئی تو ایف آئی اے نے معاملات کو دیکھنا شروع کیا۔ چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے سے استفسار کیا کہ اس جرم کو ثابت کرنے کے لیے ایف آئی اے کیا کرسکتی ہے؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹ کمپنی پر جعلی ڈگری دینے کا الزام ہے۔ لوگوں کو فون کال پر ایگزیکٹ کی ڈگری دی جاتی تھی۔ جس پر عدالت میں موجود ایگزیکٹ کے سربراہ شعیب شیخ نے کہا کہ ایف آئی اے نے جعلی ڈگری کے بارے میں غلط بیانی کی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے شعیب شیخ کو خاموش رہنے کا حکم دیا اور کہا کہ غیر متعلقہ بات نہیں سنوں گا۔ آپ غلطی کریں ہی نہیں۔ اپ کو ٹی وی پر بولتے دیکھا۔ آپ اچھے مقرر ہوں گے مگر یہاں نہیں ہیں۔

سماعت کے دوران 'ایگزیکٹ' کمپنی کے نیوز چینل 'بول' کے متاثرین بھی عدالت میں پیش ہوئےجنہوں نے درخواست کی کہ ہم بول کے متاثرین ہیں، ہمیں بھی سنا جائے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میری عدالت میں کوئی ہاتھ کھڑا کرے تو اس کو ضرور سنتا ہوں۔ ہمیں قانون کے مطابق معاملات کو ڈیل کرنا ہوگا۔ اس مقدمے میں تحقیقات کمزور ہیں، ہم ایف آئی اے کو معاملے کا جائزہ لینے کا کہیں گے۔

متاثرین نے موقف اختیار کیا کہ 'بول' انتظامیہ نے انہیں 2015ء سے تنخواہیں نہیں دی ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بول کے متاثرین سے استفسار کیا کہ مجموعی طور پر کتنے متاثرین ہیں؟ جس پر انہوں نے کہا کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے 40 ہیں جبکہ ملک کے باقی شہروں میں بھی متاثرین ہیں۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ تمام متاثرین کی فہرست دی جائے۔

سماعت کے دوران عاصمہ جہانگیر پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کی جانب سے پیش ہوئیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کا اس کارروائی سے کیا مفاد وابستہ ہے؟ اس پر عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ پی بی اے اس مقدمے میں شکایت کنندہ ہے۔ میں نے ایک درخواست پی بی اے کی جانب سے دائر کی ہے۔ مجھ سے آج جرنلسٹ یونین نے بھی رابطہ کیا۔

سپریم کورٹ نے شعیب شیخ سمیت سات ملزمان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا تو بول کے ملازم اور اینکر پرسن سمیع ابراہیم نے عدالت سے ایسا نہ کرنے کی استدعا کی۔

عدالت نے سمیع ابراہیم کی تحریری ضمانت پر تمام ملزمان کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم واپس لیتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔

کراچی میں قائم 'ایگزیکٹ' کمپنی کے بارے میں سب سے پہلے 2015ء میں نیویارک ٹائمز نے خبر دی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر میں جعلی یونیورسٹیوں کے ذریعے ہزاروں افراد کو جعلی ڈگریاں بیچی گئی۔، اس کمپنی کے زیرِ انتظام اس وقت دو نیوز چینلز بھی کام کر رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG