رسائی کے لنکس

پاکستان میں لاک ڈاؤن میں نرمی، ایس او پیز پر کتنا عمل ہو رہا ہے؟


پاکستان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کیا گیا۔ لیکن، معاشی حالات کے پیش نظر حکومت کو لاک ڈاؤن میں نرمی کرنا پڑ رہی ہے؛ اور حکومت مختلف ایس او پیز کے ذریعے حالات پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔

اس وقت کون کون سے سی 'ایس او پیز' حکومت نے جاری کیں اور ان پر عمل درآمد کس حد تک ہو رہا ہے؟ اس کا جائزہ لیتے ہیں:

مساجد اور مدارس کی ایس او پیز

مساجد اور مذہبی مقامات وہ مرحلہ ہے جہاں حکومت کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، حکومت مذہبی عناصر سے مزاحمت کے خطرہ کے باعث ان تمام معاملات کو افہام و تفہیم سے ٹھیک کرنا چاہتی تھی. لیکن, اس کے باوجود تمام مذاکرات ہونے کے بعد بھی بعض علما کی طرف سے معاہدوں کی خلاف ورزیاں کی گئیں. لیکن, حکومت صرف اعلانات ہی کرتی رہی اور اب بھی بعض مقامات پر ایس او پیز کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔

حکومت اور علما کے درمیان مذاکرات کے بعد 20 نکاتی معاہدہ ہوا جس میں تمام تر ایس او پیز لکھی گئی تھیں۔ ان میں کہا گیا تھا کہ مساجد اور امام بارگاہوں میں قالین یا دریاں نہیں بچھائی جائیں گی۔ صاف فرش پر نماز پڑھی جائے گی۔ جو لوگ گھر سے اپنی جائے نماز لا کر اْس پر نماز پڑھنا چاہیں، وہ ایسا ضرور کریں۔ نماز سے پیشتر اور بعد میں مجمع لگانے سے گریز کیا جائے۔ جن مساجد اور امام بارگاہوں میں صحن موجود ہوں وہاں ہال کے اندر نہیں بلکہ صحن میں نماز پڑھائی جائے۔ 50 سال سے زیادہ عمر کے لوگ، نابالغ بچے اور کھانسی نزلہ زکام کے مریض مساجد اور امام بارگاہوں میں نہ آئیں۔

اور یہ کہ، مسجد اور امام بارگاہ کے احاطہ کے اندر نماز اور تراویح کا اہتمام کیا جائے۔ سڑک اور فٹ پاتھ پر نماز پڑھنے سے اجتناب کیا جائے۔ مسجد اور امام بارگاہ کے فرش کو صاف کرنے کے لئے پانی میں کلورین کا محلول بنا کر دھویا جائے۔ مسجد اور امام بارگاہ میں صف بندی کا اہتمام اس انداز سے کیا جائے کہ نمازیوں کے درمیان 6 فٹ کا فاصلہ رہے۔ وضو گھر سے کر کے مسجد اور امام بارگاہ تشریف لائیں۔ صابن سے 20 سیکنڈ ہاتھ دھو کر آئیں۔ لازم ہے کہ ماسک پہن کر مسجد اور امام بارگاہ میں تشریف لائیں اور کسی سے ہاتھ نہیں ملائیں اور نہ بغل گیر ہوں۔ موجودہ صورت حال میں بہتر یہ ہے کہ گھر پر اعتکاف کیا جائے۔ مسجد اور امام بارگاہ میں افطار اور سحر کا اجتماعی انتظام نہ کیا جائے۔

یہ وہ ایس او پیز تھے جن پر عمل درآمد کا کہا گیا۔ لیکن، ان پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ آج بھی کئی مساجد میں روز اول کی طرح باجماعت نماز ادا کی جا رہی ہے اور سوشل ڈسٹنسنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔

بازاروں اور کاروباری مقامات کی ایس او پیز

کرونا کی وجہ سے کاروباری طبقہ گذشتہ دو ماہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے۔ کاروبار بند ہونے سے ملازمین کی تنخواہیں، بل اور دیگر اخراجات کے لیے آمدن بالکل ختم ہوچکی ہے۔ ایسے میں رمضان کا سیزن ہے۔ تمام کاروباری حضرات کا مطالبہ تھا کہ بے شک جو مرضی ایس او پی بنا دیں، لیکن کاروبار کھولنے کی اجازت دیں۔

اس پر حکومت نے تاجر رہنماؤں سے ملکر ایس او پیز تیار کیں۔ لیکن بدقسمتی سے ان پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا اور مختلف شہروں میں کاروبار سیل کیے جا رہے ہیں۔ کراچی کی زینب مارکیٹ کے ساتھ مدینہ مال کو سیل کر دیا گیا، لاہور میں انارکلی اور دیگر مقامات پر کاروبار بند کروانے پڑے، اس کی بڑی وجہ لوگوں کا شدید رش ہے اور کاروباری حضرات اس رش کے باعث ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کروا پا رہے۔

وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا اور 9 مئی سے کاروبار کھولنے کا اعلان کیا۔ اس کے مطابق، روزانہ صبح 5 بجے سے شام 5 بجے تک کاروبار کھولنے کی اجازت ہے، جبکہ ہفتہ میں دو روز کاروبار بند رہیں گے۔

حکومت اور تاجروں کے درمیان جو ایس او پیز طے ہوئیں، ان کے مطابق دوکان کے اندر مالک/منیجر سمیت تمام عملہ ہر صورت ماسک پہن کر رکھیں گے۔ اچھی کوالٹی کا سینی ٹائزر دوکان کے کاونٹر پر ہر صورت موجود ہوگا۔ دوکان کے باہر رسی باندھ کر لائن بنوائی جائے گی۔ دوکان کے باہر 6 فٹ کے فاصلے پر پینٹ سے گول دائرے لگائے جائیں گے۔ ایک وقت میں دو سے زیادہ گاہکوں کو دوکان کے اندر داخل نہیں ہونے دیں گے اور دو سے زیادہ گاہکوں کو دوکان کے باہر دائروں میں کھڑا رکھیں گے۔

یہ وہ ایس او پیز تھے جن پر عمل کے لیے تاجروں نے رضامندی ظاہر کی۔ لیکن اس وقت سڑکوں پر لوگوں کا اژدہام موجود ہے اور ایس او پیز کی پرواہ ندارد۔

تاجر رہنما اجمل بلوچ کہتے ہیں کہ ایس او پیز پر بیشتر تاجر عمل درآمد کر رہے ہیں۔ لیکن، اگر عوام ان کے ساتھ تعاون نہ کریں اور زبردستی دکانوں میں داخل ہوں تو ایسے میں کسی دکاندار کا کاروبار سیل کرنا بھی زیادتی ہے۔ تاجروں نے گذشتہ دو ماہ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔ ملک کی معیشت کے لیے کروڑوں روپے کا ٹیکس دینے والا یہ طبقہ اس وقت خود بحران کا شکار ہے۔ ایس او پیز پر عمل درآمد ضروری ہے، لیکن اس کے لیے عوام کا تعاون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کا تعاون بھی ضروری ہے۔ سب ایک ساتھ ملکر کرونا کی وبا اور مشکل معاشی صورتحال کا مقابلہ کرسکتے ہیں۔

مسافروں کے لیے ایس او پیز

اس وقت ملک بھر میں اندرون ملک سفر ایک مشکل مرحلہ بنا ہوا ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند ہے۔ ٹرین اور ڈومیسٹک پروازیں بھی بند ہیں، موٹرویز کھلی ہیں جہاں ایک گاڑی میں کم سے کم افراد کو سفر کی اجازت دی گئی ہے۔

اس کے علاوہ اگر سفر کرنے والے کہیں نظر آرہے ہیں تو وہ بین الاقوامی پروازوں کے لیے کچھ فلائٹس جاری ہیں۔

کرونا سب سے زیادہ انہی پروازوں کے ذریعے دنیا بھر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا۔ پاکستان میں آنے والی فلائٹس میں بھی سینکڑوں کرونا کے مریض پاکستان میں داخل ہوئے۔ لہذا، حکومت کو ان مسافروں کے لیے سخت ایس او پیز بنانا پڑیں جن پر سختی سے عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ صرف چند ایک کیسز میں بااثر افراد زبردستی ائیرپورٹس سے باہر نکلے وگرنہ حکومت اس بارے میں سخت ترین اقدامات کر رہی ہے۔

بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کے لیے جو ایس او پیز طے کی گئی ہیں ان کے مطابق باہر سے آنے والے مسافروں کا سب سے پہلے ائیرپورٹ پر تھرمل سکین کیا جائے گا، جس کے بعد انہیں 24 سے 48 گھنٹوں کے لیے قریبی ہوٹلز میں قرنطینہ کر دیا جائے گا۔ اس سلسلہ میں مسافروں کو دو آپشن دی جاتی ہیں کہ اگر حکومت کے زیرانتظام سینٹر میں رہنا چاہیں یا پھر نجی ہوٹلز میں رہنا چاہیں۔ دونوں آپشن موجود ہیں۔ لیکن نجی ہوٹل میں تمام اخراجات مسافر کو کرنا ہوتے ہیں۔

24 سے 48گھنٹوں کے بعد مسافر کا کرونا ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور اس کے نتائج کی بنیاد پر انہیں جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔

میتوں کی تجہیز و تکفین کے ایس او پیز

جن ایس او پیز پر سب سے زیادہ عمل درآمد ہو رہا ہے، شاید وہ یہی ایس او پیز ہیں۔ کرونا کے باعث ہلاکت ہونے پر حکومت نے سخت احکامات جاری کیے ہیں کہ زیادہ افراد جنازہ میں شریک نہیں ہوسکتے۔ صرف قریبی افراد کو مکمل حفاظتی کٹ پہننے کے بعد آخری دیدار کی اجازت ہوتی ہے، جس کے بعد میت کو مکمل طور پر پیک کیا جاتا ہے اور لکڑی کے باکس میں بند کرکے تدفین کے لیے بھیجا جاتا ہے۔

تدفین کے وقت بھی صرف ڈرائیور اور عملہ کے دو سے تین افراد شریک ہوتے ہیں اور باکس کو رسیوں کی مدد سے قبر میں اتارا جاتا ہے۔

نماز جنازہ کی ادائیگی بھی ایک مشکل امر ہے، کیونکہ بیشتر لوگ خود بھی خوف کے باعث نماز جنازہ میں شریک نہیں ہو رہے۔ لہذا، کئی مقامات پر دیکھنے میں آیا کہ صرف ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ نے نماز ادا کی اور تدفین کر دی گئی۔

دفاتر اور فیکٹریوں میں کام کرنے والوں کے ایس او پیز

دفاتر اور فیکٹریوں کے لیے بھی حکومت نے ایس او پیز جاری کیے ہیں۔ لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ کسی بھی فیکٹری یا دفتر میں تمام افراد لازمی ماسک استامل کرکے، فیکٹری اور دفتر میں ہر تھوڑی دیر بعد ہاتھ دھونے یا سینیٹائز کرنے کا بندوبست کیا جائے۔ ایسا شہر کے کسی بڑے صنعتی یونٹ میں تو شاید ممکن ہو سکے، لیکن کسی عام فیکٹری میں ایسا ہونا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔

ان ایس او پیز میں کہا گیا ہے کہ سماجی فاصلہ زیادہ سے زیادہ رکھا جائے گا اور کم سے کم سے چھ فٹ کا فاصلہ رکھا جائے گا۔ لیکن بیشتر مقامات پر جگہ کی تنگی کے باعث ایسا ممکن نہیں۔ یا اس کے علاوہ بعض اوقات کسی فیکٹری میں کام کی صورتحال ایسی ہوتی ہے کہ ایک ہی لائن میں کھڑے ہوکر بیشتر ملازمین کام کرتے ہیں۔

دفتر کی بھی یہی صورتحال ہے کہ بیشتر مقامات پر ملازمین اور وہاں آنے والے سائلین چھ فٹ کی سماجی دوری والے ایس او پی پر عمل درآمد تقریباً ناممکن ہے۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کہتے ہیں کہ عوام کو خود اس بیماری کے حوالے سے احساس ہونا چاہیے۔ حکومت کی طرف سے جو ایس او پیز بنائی گئی ہیں وہ ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ہی بنی ہیں۔ اگر وہ ان کی خلاف ورزی کریں گے تو اپنا نقصان کریں گے۔

کاروبار کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اکثر مقامات پر ایس او پیز کی خلاف ورزیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔ ہم ان کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اور اگر یہ جاری رہیں تو کسی بھی کاروبار کو کسی بھی وقت سیل کردیا جائے گا۔

XS
SM
MD
LG