رسائی کے لنکس

انڈونیشیا میں ’مُردوں کا تہوار‘


لوگ اپنے پورے پورے خاندانوں کے ساتھ اپنے پیاروں کی قبروں پر جاتے ہیں۔ ان کی باقیات نکال کر صفائی کرتے اور پھر انہیں مُردے کی چیزوں سے سجاتے ہیں۔ مرنے والے کے رشتے دار اس سے باتیں کرتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں پیش کرتے اور گھریلو مسائل پر بات چیت کچھ اس طرح کرتے ہیں جیسے وہ زندہ ہوں۔

موت یوں تو ایک تلخ حقیقت اور اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم دیتی ہے۔ لیکن، انڈونیشیا کے جزیرے سیلویسی کے علاقے توراجا کے رہنے والے قیبلے نے ’مُردوں کا تہوار‘ منا کر اس خیال کو بدل دیا۔

توراجا کی روایت کے مطابق، لوگ اپنے پورے پورے خاندانوں کے ساتھ اپنے پیاروں کی قبروں پر جاتے ہیں، ان کی باقیات نکال کر صفائی کرتے اور پھر انہیں مردے کی چیزوں سے سجاتے ہیں۔

مقامی لوگوں کا عقیدہ ہے کہ مرنے والے جسمانی طور پر تو یہاں نہیں، لیکن روحانی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ مقامی رہائشی تمانان کا کہنا ہے کہ، ''یہ ہر کچھ سالوں بعد خاندانوں کے یکجا ہونے کا موقع ہوتا ہے''۔

تانا توراجا کے رہنے والوں کی اکثریت عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن، وہ بھی قدیم روایت پر عمل کرتے ہوئے مُردوں کی باقیات کی صفائی کرتے اور کفن کو ان کی چیزوں سے سجاتے ہیں۔

یہاں مرنے والے کی پہلے ممی بنائی جاتی ہے پھر اسے مختلف زیورات، رنگ برنگے کفن سے سجایا جاتا ہے اس کے بعد اسے مہینوں اور کچھ لوگ تو برسوں گھر میں ہی رکھتے ہیں جس کے بعد آخری رسومات ادا کی جاتی ہیں۔

مرنے والے کے رشتے دار اس سے باتیں کرتے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں پیش کرتے اور گھریلو مسائل پر بات چیت کچھ اس طرح کرتے ہیں جیسے وہ زندہ ہوں۔

جب زیادہ تر رشتے دار اور قربانی کے لئے بھینس یا سور خریدنے کے پیسے جمع ہوجائیں تو آخری رسومات جسے ’رامبوسولو‘ کہا جاتا ہے، ادا کی جاتی ہیں۔

آخری رسومات میں پورے گاؤں اور مختلف برداریوں کو شرکت کی دعوت جاتی ہے۔

جنازے کو تدفین کے لئے لے جانے کے دوران رشتے دار مرنے والے کی یاد میں آنسو بھی بہاتے ہیں۔

تابوت کو شوخ سرخ اور پیلے رنگوں میں رنگا جاتا ہے اور اس میں مرنے والے کے کپڑے اور ذاتی اشیا رکھی جاتی ہیں اور پھر اسے پہاڑوں کے درمیان چٹانوں کے درمیان رکھ دیا جاتا ہے۔

خصوصی طور پر پہاڑوں میں تراشے گئے ان مقبروں کی اونچائی تین منزلہ عمارت کے برابر ہوتی ہے اور اس کی تیاری میں تین سے چھ ماہ لگتے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے، رائٹرزکے مطابق، ایک مقامی رہائشی 21 سالہ مائننگ انجنیئرنگ کے طالب علم رینالٹ پترین نے کہا کہ کئی نسلوں سے چلی آرہی روایت اور رسم کو آنے والی نسل کو منتقل کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا کہ، ’’میں نوکری کرنے اور پیسے کمانے کے بعد بھی اپنی روایت ترک نہیں کروں گا۔‘‘

XS
SM
MD
LG