رسائی کے لنکس

فوجی عدالت سے سزائے موت کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل


لاہور ہائی کورٹ
لاہور ہائی کورٹ

صابر کی والدہ لیلیٰ بی بی نے لاہور ہائی میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ان کے بیٹے کی عمر 18 سال سے کم ہے اور مقدمے اس کے وکیل کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔

پاکستان کی ایک عدالت نے فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرم کی سزا کو کالعدم قرار دینے سے متعلق درخواست میں وزارت داخلہ سے جواب طلب کیا ہے۔

رواں ماہ فوجی عدالت کی طرف سے پانچ دہشت گردوں کو سزائے موت سنائی تھی جن میں شامل سید صابر شاہ کی والدہ نے اس سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اس درخواست کی منگل کو دو رکنی بینچ نے سماعت کرتے ہوئے وزارت داخلہ سے جواب طلب کیا ہے کہ فوجی عدالت نے کس طرح اس معاملے کی تحقیقات اور مقدمے کی کارروائی کی۔

گزشتہ ہفتے فوج کی طرف سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا تھا کہ صابر شاہ ایک کالعدم تنظیم کا رکن تھا اور اس نے فرقہ وارانہ بنیاد پر لاہور میں ایک وکیل ارشاد علی کے قتل میں معاونت کی تھی۔

صابر کی والدہ لیلیٰ بی بی نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ ان کے بیٹے کی عمر 18 سال سے کم ہے اور مقدمے میں نہ تو اس کے وکیل کو صفائی کا موقع دیا گیا اور نہ ہی خاندان کے کسی فرد کو ملنے کی اجازت دی گئی۔

پاکستان کے قانون کے تحت کم عمر مجرموں کو موت کی سزا نہیں دی جاتی۔

لیلیٰ بی بی نے عدالت سے استدعا کی کہ فوجی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور سزائے موت پر عملدرآمد پر حکم امتنائی جاری کیا جائے۔

تاہم لاہور کورٹ کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ کا جواب موصول ہونے تک حکم امتناعی جاری نہیں کیا جائے گا۔ اس کے بعد سماعت دس ستمبر تک ملتوی کر دی گئی۔

رواں سال کے اوائل میں پارلیمان نے آئین میں ترمیم کر کے دو سال کے لیے فوجی عدالتیں قائم کرنے کی منظوری دی تھی جس کے بعد ملک بھر میں نو فوجی عدالتیں قائم کی گئیں۔

ان عدالتوں سے اب تک 18 دہشت گردوں کو سزائے موت اور تین کو عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

فوجی عدالتوں سے دی گئی سزائے موت کے خلاف اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ میں بھی دو مجرموں کے اہل خانہ نے درخواست دائر کر رکھی ہے۔

XS
SM
MD
LG