امریکہ کے سابق نائب صدر اور 2020 کے صدارتی انتخاب کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک کلیدی صدارتی امیدوار جو بائیدن نے کہا ہے کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے نامزدگی حاصل کرنے کی صورت میں اپنے رننگ میٹ یعنی نائب صدارت کے امیدوار کا انتخاب ری پبلکن پارٹی سے کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
امریکی ریاست نیو ہیمپشائر میں پیر کو ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ فی الحال وہ یہ نہیں بتا سکتے کہ ان کا ساتھی کون ہو گا۔
بائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اعتدال پسند ڈیموکریٹس، آزاد ووٹرز اور ری پبلکن پارٹی کے ان ارکان کو ہدف بنایا ہے جو صدر ٹرمپ کی حمایت نہیں کرتے۔
اپنی انتخابی مہم میں بائیڈن نے اکثر کہا ہے کہ وہ نامزدگی حاصل کرنے کی صورت میں کانگریس میں ری پبلکن ارکان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کوشش کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں بائیڈن کا کہنا تھا کہ ری پبلکن پارٹی میں کچھ اچھے لوگ موجود ہیں۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اب کھل کر بات کرنی چاہئیے۔
77 سالہ بائیڈن سابق صدر براک اوباما کے دور میں دو مدتوں کیلئے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ وہ 35 برس تک سینیٹر منتخب ہوتے آئے ہیں۔ تاہم، ڈیموکریٹک پارٹی کے ترقی پسند ارکان ان پر یہ کہتے ہوئے تنقید کرتے ہیں کہ وہ پارٹی کے بائیں بازو کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتے اور انہیں امریکہ کے سیاسی نظام کی اصلاح میں بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
بائیڈن اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے صدارتی انتخاب میں اپنے ساتھی کے طور پر ایک خاتون یا غیر سفید فام شخص کے انتخاب کو ترجیح دیں گے۔
عوامی جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بائیدن اپنی پارٹی کے ان سے زیادہ اعتدال پسند امیدواروں برنی سینڈرز اور ایلزبتھ وارن کے مقابلے میں زیادہ مقبولیت رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شکست دینے کیلئے وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے بہترین امیدوار ہوں گے، کیونکہ انہیں ان ریاستوں میں اعتدال پسند ووٹروں کی حمایت حاصل ہے جہاں دونوں جماعتوں کے امیدواروں میں مقابلے بازی کی فضا زیادہ شدید ہو گی۔
ماضی میں بھی کچھ امیدواروں نے اپنے ساتھی کے انتخاب کیلئے پارٹیوں سے اوپر اٹھ کر فیصلہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ 2008 کے صدارتی انتخاب کیلئے رپبلکن امیدوار سینیٹر جان مکین نے اپنے قریبی دوست اور ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جو لیبرمین کا انتخاب کیا تھا جو بعد میں ڈیومکریٹک پارٹی سے علیحدہ ہو کر آزاد سیاست دان ہو گئے تھے۔ تاہم، پارٹی کے اندرونی حلقوں کی طرف سے دباؤ کے تحت انہوں نے الاسکا کی سابق گورنر سارہ پیلن کا انتخاب کر لیا تھا۔ تاہم، ان کا یہ اقدام ناکام رہا تھا اور ان کے مقابلے میں براک اوباما صدارتی انتخاب جیت گئے تھے۔