رسائی کے لنکس

آئندہ صدارتی انتخاب کے لیے اُمیدواروں کی انتخابی مہم میں تیزی


ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار جو بائیڈن، برنی سینڈرز اور دیگر۔ فائل فوٹو
ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارتی امیدوار جو بائیڈن، برنی سینڈرز اور دیگر۔ فائل فوٹو

امریکہ میں 2020 میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخاب کیلئے مہم کا باقاعدہ آغاز جنوری سے ہو رہا ہے جب 3 فروری کو ہونے والے آئیووا کاکس کی ووٹنگ سے قبل ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کی انتخابی مہم میں شدت پیدا ہوگی۔

امریکہ میں ہونے والے عوامی جائزوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹک امیدواروں میں سابق نائب صدر جو بائیڈن سب سے آگے ہیں۔ تاہم، ان کی پارٹی کے دیگر امیدوار بھی آئیووا، نیو پیمپشائر اور ساؤتھ کیرولائنا ریاستوں میں ہونے والی ووٹنگ سے قبل سخت مقابلے کی کوشش کرتے دکھائی دیں گے۔

جو بائیڈن کافی عرصے سے یہ دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ وہ آئندہ سال نومبر میں ہونے والی صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے والے ڈیموکریٹک پارٹی سے سب سے مضبوط امیدوار ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اس لیے ان پر تنقید کر رہے ہیں کہ وہ ملک کو متحد کرتے ہوئے سادہ لوحی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم ملک کو متحد نہیں کر سکتے تو ہم جیت نہیں سکیں گے۔

بائیڈن ملک میں قومی سطح پر ہونے والے عوامی جائزوں میں سب سے آگے دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم، انہیں آئیووا اور نیو ہیمپشائر میں ہونے والی ابتدائی ووٹنگ میں میساچیوسٹس سے سینیٹر ایلزبتھ وارن جیسے حریفوں سے سخت مقابلے کی توقع ہے۔ ایلزبتھ وارن کہتی ہیں کہ اگر ہم ایسی معیشت چاہتے ہیں جو ترقی کرے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم ارب پتی لوگوں کو مالی فوائد پہنچانے کے بجائے اپنے لوگوں پر توجہ دیں۔

ایلزبتھ وارن 2019 کے دوران اکثر عوامی جائزوں میں نمایاں رہی ہیں۔ تاہم، حالیہ دنوں میں ان کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک اور امیدوار جو مذکورہ ریاستوں میں زیادہ مقبولیت حاصل کرتے دکھائی دے رہے ہیں وہ ساؤتھ بینڈ، انڈیانا کے میئر پیٹ بٹی گیگ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہمیں امریکی اکثریت کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کرنے کے بجائے انہیں متحرک کرنے کی ضرورت ہے جو بڑے پیمانے پر اصلاحات اور بڑے تصورات سامنے لانے کیلئے تیار ہیں۔ یہ کام ہم کئی دہائیوں سے نہیں کر پائے۔ ہم اس اکثریت کو برقرار رکھ سکیں اور اسے تقسیم کرنے یا مٹا دینے کی کوشش نہ کریں تو بہتر ہوگا۔‘‘

ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں میں ایک بڑا نام ورمانٹ سے سینیٹر برنی سینڈرز کا ہے جو اکثر اپنی انتخابی ریلیوں میں صدر ٹرمپ کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ وہ لوگوں کو متحد کرنے کی جستجو میں ہیں۔

دیگر امیدواروں میں مینے سوٹا کی سینیٹر ایمی کلوبوچر، نیو جرسی کے سینیٹر کوری بوکر اور سرمایہ کار اینڈریو ینگ شامل ہیں جو آئیووا میں ہونے والی ابتدائی ووٹنگ میں بہتر کارکردگی دکھانے کیلئے کوشاں ہیں۔

یونیورسٹی آف ورجینیا سے وابستہ تجزیہ کار لیری سباٹو کا کہنا ہے کہ اس ابتدائی ووٹنگ میں انہیں کڑے امتحان کا سامنا ہوگا۔ وہ کہتے ہیں، ’’انتخابی مہم جاری رکھنا مشکل ہے، کیونکہ مالی عطیات دینے والے کہتے ہیں، ’’مجھے آپ کا ساتھ دیتے ہوئے اچھا لگا اور مستقبل کیلئے آپ کیلئے نیک خواہشات ہیں۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ وہ مزید پیسے دینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یوں، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ کو اپنی مہم بند کرنی پڑے گی‘‘۔

ڈیموکریٹک پارٹی کو متفقہ امیدوار کے انتخاب کیلئے سخت مقابلے کا سامنا ہوگا۔ یہ مقابلہ صدر ٹرمپ کے خلاف ایک مضبوط امیدوار کا انتخاب کرنے والے اعتدال پسندوں اور لبرلز کے درمیان ہوگا، جو اقتصادی اصلاحات اور سماجی تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ وینڈر بلٹ یونیورسٹی کے ماہر ٹامس شوارٹس کہتے ہیں، ’’ڈیموکریٹک پارٹی میں توانائی جو بائیڈن جیسے اعتدال پسندوں کے بجائے بائیں بازو کی طرف جھکتی نظر آتی ہے۔ لہٰذا، توقع ہے کہ یہ انتخاب خاصی حد تک منقسم ہوگا۔

نیو یارک کے سابق میئر مائیکل بلوم برگ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کی دوڑ میں تاخیر سے شامل ہوئے ہیں، لیکن حالیہ عوامی جائزوں میں انہوں نے خاصی حد تک مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ اس کیلئے انہوں نے ٹیلی ویژن پر اشہتارات کیلئے کروڑوں ڈالر کی رقم خرچ کی ہے۔

XS
SM
MD
LG