رسائی کے لنکس

عام انتخابات 2024: کیا امریکہ پاکستان کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟


پاکستان میں کئی سیاسی جماعتیں اور رہنما حکومتوں کی تبدیلی اور انتخابات پر بیرونی قوتوں کے اثر انداز ہونے کے الزامات عائد کرتے آئے ہیں تاہم وائس آف امریکہ کے اس سے متعلق سروے میں نوجوانوں کی رائے مختلف تصویر پیش کرتی ہے۔

حال ہی میں پاکستان کی سیاست میں اس الزام کی گونج ایک بار پھر سنائی دی جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے مارچ 2022 میں ایک کاغذ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد بیرونی سازش کا نتیجہ ہے۔

بعدازاں عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور امریکہ کو سازش کا ذمے دار بھی قرار دیا۔ امریکہ نے اس الزام کو بارہا مسترد کیا تھا۔ کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کے اس بیانے کو عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔

وائس آف امریکہ کی جانب سے کرائے گئے سروے میں یہ سوال شامل تھا کہ کیا کوئی ملک پاکستان کے الیکشن پر اثر انداز ہوسکتا ہے؟ اس کے جواب میں 27 فی صد نوجوانوں کے نزدیک امریکہ ایسا کر سکتا ہے۔

یہ سائنٹیفک سروے ملٹی نیشنل کمپنی اپسوس کے ذریعے کرایا گیا تھا جس میں پورے پاکستان سے سیاست، انتخابات اور مختلف شعبوں میں توقعات و خدشات سے متعلق نوجوانوں کی رائے لی گئی تھی۔

سروے میں پاکستان کی حکومت پر غیر ملکی طاقتوں کے اثر سے متعلق پوچھے گئے سوال کے نتائج بھی عمومی تاثر سے مختلف تھے۔ اس سوال کے جواب میں 64 فی صد نوجوانوں نے حکومت پر غیر ملکی اثر کی نفی کی اور صرف 36 فی صد نے کہا تھا کہ یہ درست ہے۔

’حقائق سامنے نہیں آتے‘

سروے کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا ہے کہ ایسے سرویز میں حقائق تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے پاکستان میں مبینہ حکومتوں کی تبدیلیوں سے متعلق باتیں دنیا کے دیگر ممالک جیسا کہ ایران، لیبیا اور عراق میں امریکی رجیم چینج آپریشنز سے جڑی ہیں۔

انہوں نے کہ پاکستان میں یہ تصور بالکل موجود ہے کہ پاکستان کی سیاست میں بین الاقوامی مداخلت ہوتی ہے اور پھر ہمارے ہاں جو بند کمروں میں ملاقاتوں کا سلسلہ ہوتا ہے اس سے بھی یہ اس تاثر کو تقویت ملتی ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی کے بقول پاکستان میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ اگر چیف (آف آرمی اسٹاف) کو اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع درکار ہوتی ہے تو وہ امریکہ جاتے ہیں اور اگر کسی سیاسی رہنما کو پھر سے سیاست میں آنا ہے تو بھی اسے امریکہ کی مدد حاصل کرنا پڑتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو سے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ 2007 میں امریکہ کی مدد سے پاکستان واپس آئیں۔

واضح رہے کہ بے نظیر بھٹو اکتوبر 2007 میں خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان پہنچیں تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے امریکی مدد یا کسی ڈیل کے تاثر کو رد کیا تھا۔

ہما بقائی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ویسے بھی حقائق سے پردہ اٹھانے کا کوئی کلچر نہیں ہے۔ ملکی تاریخ میں پیش آنے والے کئی سانحات چاہے وہ اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہو یا سقوط ڈھاکہ یا اس جیسے کئی اور بڑے قومی واقعات، پاکستان میں ان سے متعلق حقائق عام نہیں کیے جاتے۔ اس لیے اکثر کوئی نہ کوئی تاثر تو قائم ہو جاتا ہے لیکن اس میں معروضیت نہیں ہوتی۔

ڈاکٹر ہما بقائی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سازشی نظریات پر بہت اعتبار کیا جاتا ہے لیکن کچھ ایسے واقعات ضرور ہیں جن کے واضح شواہد ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہنری کسنجر کی جانب سے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو عبرت کی مثال بنانے کا کہا گیا تھا۔ اس کے بعد جب انہوں نے ایٹمی پروگرام جاری رکھا تو نہ صرف ان کی حکومت ختم ہوئی بلکہ انہیں ایسے مقدمے میں سزا سنائی گئی جسے آج ہر کوئی عدالتی قتل تسلیم کرتا ہے۔

ڈاکٹر ہما بقائی کہتی ہیں کہ پاکستان کی سرحدوں پر بالخصوص بھارت کے ساتھ جب بھی مسائل ہوئے ہیں تو چاہے وہ کارگل جنگ ہو، یا 71 کی لڑائی، امریکہ کا کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔

ان کے بقول خود امریکہ میں انکشافات ہوئے ہیں اور دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ ہوئی ہیں اس میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وائٹ ہاوس میں کیا فیصلے ہوئے۔

’ٹھوس شواہد نہیں ملتے‘

دوسری جانب انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر اور پاکستان کے معروف تاریخ دان ڈاکٹر سید جعفر احمد کے مطابق پاکستان کی سیاست میں بیرونی مداخلت بالخصوص امریکہ کی مبینہ مداخلت کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملتے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ ضرور کہا تھا کہ ان کے خلاف 1977 میں پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تشکیل بیرونی اشاروں پر ہوئی تھی۔ لیکن بھٹو اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لا سکے تھے۔ تاہم یہ بات اس زمانے میں بھی اور بعد میں بھی بالواسطہ طور پر کہی گئی تھی کہ پی این اے کی تحریک کو مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک کی جانب سے مالی حمایت ملی۔

اس سوال پر کہ کیا امریکہ کی طرح سعودی عرب، بھارت یا دیگر ممالک بھی پاکستان میں انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ ڈاکٹر ہما بقائی کا خیال تھا کہ پاکستان میں آپس میں ہی سیاست دان اس قدر دست و گریبان ہیں کہ یہ آوازیں زیادہ سنائی دیتی ہیں۔ لیکن اس حوالے سے فنانسنگ اور لابنگ ضرور ہو سکتی ہے ان ممالک کے لیے پاکستان کی سیاست میں کوئی سیاسی تبدیلی لانا ممکن نہیں۔

سید جعفر احمد کا کہنا تھا کہ سعودی عرب، بھارت یا دیگر ممالک کی بھی اس حوالے سے رائے ضرور ہو سکتی ہے لیکن وہ نہیں سمجھتے کہ وہ کسی طرح اس انتخابات پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔

ان کے بقول افغانستان پاکستان میں انتخابی عمل پر ضرور اثر انداز ہو سکتا ہے کیوں کہ دیگر ممالک کے مقابلے میں اس کی سرحدوں سے زیادہ آمد و رفت رہتی ہے۔ ان کے بقول، طالبان یہاں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اس کی ایک مثال تو یہ بھی موجود ہے کہ گزشتہ بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن تو افغان شہریت بھی رکھتے تھے۔

واضح رہے کہ سن 2018 کے انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی 26 سے احمد علی نامی اُمیدوار کامیاب قرار پائے تھے۔ بعدازاں یہ انکشاف ہوا تھا کہ وہ افغان شہری ہیں، لہذٰا الیکشن کمیشن نے اُن کی کامیابی کا نوٹی فکیشن واپس لے لیا تھا۔

ڈاکٹر جعفر احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امریکہ کی مبینہ مداخلت کے بارے میں واقعاتی شواہد کی بنیاد پر بات کی جائے تو کہا جاتا ہے کہ بھٹو کو سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے کوئی دھمکی دی تھی لیکن ان کے بقول، اس کا بھی کوئی واضح ثبوت موجود نہیں۔

وائس آف امریکہ اور اپسوس کے اس سروے کے لیے 18 سے 34 سال کے 2050 افراد سے فون پر رابطہ کرکے تین سے 12 جنوری 2024 کے درمیان رائے لی گئی تھی۔ سروے کے نتائج میں غلطی کا امکان (مارجن آف ایرر) +/- دو فی صد ہے۔
وائس آف امریکہ کا یہ سروے سائنسی بنیادوں پر کیا گیا ہے۔ سائنٹیفک سرویز کے نتائج عام تاثر اور میڈیا یا سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی مقبول آرا سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ ان سرویز کے نتائج کا انحصار سوالوں کی ترتیب اور ان کے پوچھے جانے کے انداز، سروے کے طریقۂ کار اور جواب دینے والوں کے انتخاب پر بھی ہوتا ہے۔ سروے کے بارے میں مزید جاننے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔

فورم

XS
SM
MD
LG