رسائی کے لنکس

خاتون کی آمدنی مرد سے زیادہ ہو تو گھریلو تشدد میں 35 فی صد اضافہ ہوتا ہے، تحقیق


سڈنی میں خواتین صنفی مساوات کے حق کے لئے مظاہرہ کر رہی ہیں۔ فائل فوٹو
سڈنی میں خواتین صنفی مساوات کے حق کے لئے مظاہرہ کر رہی ہیں۔ فائل فوٹو

آسٹریلیا میں کی گئی ایک نئی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اپنے شوہر سے زیادہ آمدنی رکھنے والی خواتین میں سے 35 فیصد کو گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جبکہ ایسی 20 فیصد خواتین کو تشدد کی اس قسم کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جسے جذباتی تشدد کہا جاتا ہے۔

یہ نتائج آسٹریلیا کے ادارہ برائے شماریارت کے اعداد و شمار کی بنیاد پر انسٹی ٹیوٹ آف لیبر اکنامکس کی ایک محقق ینجنجی زیک نے مرتب کئے ہیں۔

تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اس سلسلے میں عمر، آمدنی، ثقافت اور تعلیم سے نتائج میں زیادہ فرق نہیں آیا اور ہر طبقے کی خواتین کو ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔

تحقیق میں عورتوں کی آمدن زیادہ ہونے سے مردوں کے خلاف جسمانی یا ذہنی تشدد میں اضافہ نہیں دیکھا گیا۔

اس تحقیق میں آسٹریلیا کے پبلک سیفٹی ڈیٹا کو استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ڈیٹا آسٹریلیا کے ادارہ برائے شماریات کی جانب سے گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والوں سے انفرادی طور پر سروے کے بعد مرتب کیا گیا ہے۔ اس کے لیے بیورو نے سال 2005، 2012 اور 2016 کے سالوں کے دوران جمع کئے گئے اعدادو شمار پر انحصار کیا ہے۔

یاد رہے کہ یہ تحقیق ’’Peer Reviewed‘‘ یعنی غیر جانبدارانہ طور پر دوسرے ماہرین کی جانب سے جانچی نہیں گئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق گھریلو تشدد کا مسئلہ دنیا بھر میں موجود ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی 2017 کی رپورٹ کے مطابق دنیا کی ان تمام خواتین میں سے جو کسی بھی قسم کے ازدواجی رشتے سے منسلک ہیں، 30 فیصد نے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کے ہر تین میں سے ایک قتل کے پیچھے اس کا شریک حیات ہوتا ہے۔

تحقیق کے مطابق آسٹریلیا میں کئے گئے سروے کے نتائج سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ ہر چھ میں سے ایک خاتون کو جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا، اس کے علاوہ ہر چار میں سے ایک خاتون کو اپنے شوہر یا پارٹنر کے ہاتھوں ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

اس کے مقابلے میں ہر سولہ میں سے ایک مرد کو گھریلو اور ہر چھ میں سے ایک مرد کو ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔

تحقیق میں یہ بات نوٹ کی گئی کہ بہت سے کیس رپورٹ نہیں ہوتے اور یہ اعداد و شمار ان کیسز کے ہیں جنہیں خواتین یا مردوں نے رپورٹ کیا۔ اس سلسلے میں 2009 کی ایک امریکی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے مصنفین نے لکھا کہ امریکہ میں تشدد کے صرف 20 سے 50 فیصد تک کیسز پولیس کو رپورٹ کیے جاتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کو ذہنی و جسمانی تشدد کی وجہ سے جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس سے ملک کی معیشت کو بھی بھاری نقصان ہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق 2015 اور 2016 کے درمیان عورتوں اور بچوں کے خلاف تشدد کی وجہ سے طبی اخراجات، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سروسز اور انسانی سرمایے کے نقصان کی مد میں آسٹریلوی معیشت کو 22 ارب آسٹریلوی ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔

رپورٹ میں گھریلو تشدد سے متعلق اس نظریے پر تحقیق کی گئی کہ کسی بھی خاندان کے رکن کا گھر میں رتبہ یا مقام اس کے معاشی حالات پر منحصر ہوتا ہے۔ اس نظریے کے مطابق معاشی حالت بہتر ہونے کی صورت میں اس مرد یا عورت کے خلاف گھریلو تشدد کے امکان میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔

لیکن آسٹریلیا میں کی گئی تحقیق کے نتائج اس کے برعکس صورت حال کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس تحقیق کے مطابق اگر کسی جوڑے میں خاتون کی آمدنی مرد شریک حیات سے بڑھتی گئی، تو ان کے ازدواجی رشتے میں دراڑ پڑتی گئی۔

حال ہی میں پاکستانی روزنامہ ڈان نے گلوبل جینڈر گیپ انڈیکس 2020 کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ مردوں اور عورتوں کی آمدنی میں فرق کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے 153 ممالک میں 151 نمبر پر ہے، جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کے جینڈر ڈویلپمنٹ انڈیکس 2020 کے مطابق مردوں اور عورتوں میں آمدنی کے فرق کے لحاظ سے پاکستان 189 ممالک میں 154 ویں پوزیشن پر ہے۔

یاد رہے ’جینڈر پے گیپ یا خواتین اور مردوں کے مابین آمدنی کے فرق کا تعلق کسی ملک کے سماجی اور ثقافتی حالات سے ہوتا ہے۔

XS
SM
MD
LG