رسائی کے لنکس

سنگِ ماہ کی آخری قسط: 'مرجان اور زرسانگہ کا یہی انجام ہونا تھا'


نجی چینل'ہم ٹی وی' پر نشر ہونے والے اس ڈرامے میں چھ ماہ تک شائقین کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا۔
نجی چینل'ہم ٹی وی' پر نشر ہونے والے اس ڈرامے میں چھ ماہ تک شائقین کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا۔

پاکستان میں مختلف موضوعات پر ڈرامے بنائے جاتے ہیں جن میں سے زیادہ تر میں معاشرتی برائیوں کی عکاسی کی جاتی ہے۔ ان میں سے کچھ ڈرامے ایسے بھی ہوتے ہیں جو عوام کو سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ڈرامہ 'سنگِ ماہ' ہے، جو حال ہی میں اختتام پذیر ہوا ہے۔

نجی چینل'ہم ٹی وی' پر نشر ہونے والے اس ڈرامے میں چھ ماہ تک شائقین کو اپنی طرف متوجہ کر رکھا۔ڈرامے میں معاشرے کی برائیوں کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

ڈرامے میں مرکزی کردار گلوکار عاطف اسلم نے ادا کیا جب کہ نعمان اعجاز، سمیعہ ممتاز، ثانیہ سعید، کبریٰ خان، ہانیہ عامر, عمیر رانا اور زاویار نعمان نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔مصطفیٰ آفریدی کے تحریر کردہ اس ڈرامے کی ہدایت کاری سیفِ حسن نے دی۔

اس ڈرامے کی کہانی پاکستان کے قبائلی علاقوں کے گرد گھومتی ہے۔ ڈرامے کے مصنف مصطفیٰ آفریدی کا تعلق چوں کہ خیبرپختونخوا سے ہے ، اس لیے ان کے دونوں ڈراموں ''سنگِ مرمر'' اور ''سنگِ ماہ'' دونوں کی کہانی خیبرپختونخوا کے علاقوں کے گرد گھومتی ہے۔

سنگِ ماہ کی پہلی قسط رواں سال کے آغاز میں سنیما اسکرینز پر دکھائی گئی تھی۔ البتہ اس کی آخری قسط گزشتہ اتوار کو ٹی وی پر نشر ہوئی جسے لوگوں نے پسند کیا جب کہ کئی لوگوں کو ڈرامے کا اختتام پسند نہیں آیا۔

ڈرامے کا اختتام پسند نہ آنے کی ایک وجہ آخری قسط میں دو مرکزی کرداروں حاجی مرجان اور زرسانگہ (نعمان اعجاز اور سمیعہ ممتاز) کا خودکشی کرنا تھا۔جن ناظرین کو اس ڈرامے کا اختتام پسند نہیں آیا، انہوں نے اپنی ناراضی کے اظہار کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔

ناراض ناظرین کے خیال میں اگر کہانی کے اختتام پر تمام فریقین ہنسی خوشی رہتے تو ڈرامہ لمبے عرصے تک یاد رہتا۔مگر ڈرامے کے مصنف اس بات سے متفق نہیں۔ ان کےبقول ڈرامے کا اس کے علاوہ کسی اور طرح سے اختتام کرنا ناممکن تھا۔

'سنگ ماہ' کی کہانی میں خاص کیا تھا؟

ڈرامے کی کہانی لس پیران کے فرضی علاقے میں ہلمند(عاطف اسلم) نامی نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو اپنے سگے باپ کے قتل کا بدلہ اپنے سوتیلے باپ حاجی مرجان سے لینے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔

جوں جوں کہانی آگے بڑھتی ہے، ہلمند کی طبیعت میں سختی آتی رہتی ہے۔لیکن ڈرامے کے آخر میں اس پر یہ راز کھلتا ہے کہ اس کا سگا باپ ایک برا آدمی تھا جس نے ''غگ'' جیسی رسم کے ذریعے ہلمند کی ماں زرسانگہ (سمیعہ ممتاز) سےزبردستی شادی کی، جس کے بعد حاجی مرجان کی مدد سے زرسانگہ نے اپنےشوہر کو زہردے کر مار دیا تھا۔

ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ غگ ایک قبائلی رسم ہے جس کے تحت قبیلے کا کوئی بھی لڑکا کسی بھی لڑکی کے گھر کے باہر اپنی بندوق سے فائر کرنے کے ساتھ ہی اس سےشادی کا دعوے دار بن جاتا ہے۔

اسی دوران ہلمند اپنے علاقے کی لڑکی گل مینا (ہانیہ عامر) سے بھی غگ کے ذریعے شادی کا اعلان کرتا ہے۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کا سوتیلا بھائی حکمت(زاویار نعمان) اس سے محبت کرتا ہے۔

کہانی کے اختتام میں گل مینا کی والدہ زرغونہ(ثانیہ سعید) غگ کے خلاف جرگے پہنچ جاتی ہے جہاں وہ سردار سے انصاف مانگتی ہے، جو اسے ملتا ہے۔ لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

ہلمند کو اپنی غلطی کا احساس ہوچکا ہوتاہےاور وہ اپنے سگے باپ کے قتل کا بدلہ لینے سے پیچھے ہٹ جاتا ہے۔لیکن جب وہ گھر پہنچ کر اپنی والدہ اور سوتیلے باپ کو یہ خبر سناتا ہے تو وہ دونوں خودکشی کرچکے ہوتے ہیں۔

ڈرامے کے اس طرح کے اختتام پر شائقین کا کہنا ہے کہ آخری قسط میں جب ہلمند کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا تو اسے اپنے والدین کے ساتھ ہنسی خوشی رہتا ہوا دکھانا چاہیے تھا۔

ایک صارف نے یہ اعتراض بھی اٹھایا کہ اگر حاجی مرجان کا کردار ہر بات میں شریعت کو لاتا تھا تو زندگی ختم کرنے سے پہلے اس بارے میں کیوں نہیں سوچا۔

'ڈرامے کا اختتام کرداروں نے خود چنا'

البتہ ہم ٹی وی کے مشہور ڈرامے 'عہدِ وفا'، 'سنگِ مرمر' اور 'آنگن' کے لکھاری مصطفیٰ آفریدی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ڈرامے کا اختتام انہوں نے نہیں ان کے کرداروں نے چنا۔

ان کے بقول ''حاجی مرجان اور زرسانگہ نے جو کیا تھا ان کا یہی انجام ہونا تھا۔ ان دونوں کو اپنے کارما اور جھوٹ نے مارا ہے۔ آخر وہ کب تک اپنے جھوٹ کا وزن اٹھاتے۔انسان تھے ایک نہ ایک دن تو تھکنا ہی تھا۔''

مصطفیٰ آفریدی کہتے ہیں ''ڈرامے میں ہم نے فیمینزم نہیں انسانی حقوق کی بات کی ہے۔ چاہےمرد ہو یا عورت یا معاشرے کا کوئی بھی مظلوم طقہ، جہاں ان کا استحصال ہوگا وہاں کسی نہ کسی میں اتنی ہمت ہوگی کہ وہ اٹھے۔''

ان کا کہنا تھا کہ مظلوم ہتھیار نہیں اٹھا سکتے لیکن آواز ضرور اٹھا سکتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس اپنی ذات اور آواز کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ لازم ہے کہ ان کی آواز سنی جائے۔وہی معاشرہ زندہ ہے جو مظلوم کو احتجاج کا پورا حق دیتا ہے۔

ان کے بقول اگر وہ ڈرامے کے ذریعے کچھ سمجھانے کی کوشش کرتے تو کہانی کہیں دور چلی جاتی۔ انہوں نے صرف کہانی سنائی ، لوگوں کی اصلاح ان کا مقصد نہیں۔

'آخری قسط میں کہانی سمیٹنے کی وجہ سے انصاف نہیں کرسکے'

دبئی میں مقیم انٹرٹینمنٹ صحافی و تجزیہ کار مہوش اعجاز ، مصطفیٰ آفریدی کے خیالات سے اختلاف کرتی نظر آتی ہیں۔ان کے خیال میں 'سنگِ ماہ' کی ٹیم نے بہت سارے معاملات کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے جو قدم اٹھائے، اس کی وجہ سے وہ ڈرامے کی آخری قسط سے انصاف نہ کرسکے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈرامے کے اختتام سے بالکل خوش نہیں ۔اگر جلدبازی نہ کی جاتی تو تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل ہوجاتے اور زبردستی کا 'ٹریجک اینڈ ' نہ دیکھنے کو ملتا۔

ان کے بقول ڈرامہ بنانے والوں نے اپنی طرف سے تو اچھا اختتام کیا۔ لیکن ان کے خیال میں تمام پلاٹ لائنز کو سمیٹ لینے کی جلدی نے ڈرامے کی آخری قسط کو خراب کیا، اگر وہ تھوڑا اور وقت دیتے تو ڈرامے کا کلائمکس بھی اچھا ہوجاتا اور تمام مسائل بھی حل ہوجاتے۔

ڈرامے میں بعض شائقین نے فیمنزم کو سراہا وہی مہوش اعجاز کے بقول'' اسے زبردستی ڈرامے کی کہانی پر مسلط کیا گیا۔ انہیں کبریٰ خان کے کردار شہرے زاد نے بھی زیادہ متاثر نہیں کیا کیوں کہ وہ علاقے میں داخل تو بطورِ صحافی ہوتی ہیں لیکن آخر میں کچھ کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتی ہیں۔''

ان کا کہنا تھا کہ''ڈرامے میں ایک ایسا جرگہ دکھایا گیا ہے جو کئی دہائیوں سے ایک پدرانہ نظام کا دفاع کررہا ہے اور اپنے آپ کو بچانے یا اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیےشریعت کا ستعمال کرتا ہے۔''

مہوش اعجاز کا کہنا تھا کہ'' اچانک عورتوں کا اکٹھے ہوکر اسی جرگے سے انصاف مانگنا عجیب لگا ، یقینا اس سے پہلے بھی کبھی نہ کبھی ایسا ہوا ہوگا، جب پہلے انصاف نہیں ملا تو اب کیوں ملے گا۔''

ان کے خیال میں کبریٰ خان جب ڈرامے میں آتی ہیں تو ایک تحقیقاتی صحافی ہوتی ہیں۔لیکن کہانی میں سب کچھ پسِ پشت ڈال کر ان کی بھی ایک حد مقرر کردی گئی ہے۔ انہیں ایک اہم کردار کے طور پر پیش نہ کرنا ایک اچھے موقع کو گنوا دینے کے مترادف ہے۔

مہوش اعجاز سمجھتی ہیں کہ اگر ڈرامےکی آخری قسط میں مستان سنگھ اور بادام گل کے کردار موجود ہوتے، تو پلاٹ ادھر ادھر نہ جاتا، جن خواتین نے انصاف کے لیےآواز اٹھائی، ان کو انصاف ملتے نہ دکھانا بھی زیادتی تھا۔

انہوں نے سوال اٹھائے کہ ''غگ جیسی قبائلی رسم کے خلاف ڈرامے میں آواز اٹھائی گئی اور تمام خواتین اکٹھا ہوگئیں۔ لیکن کیا اس مسئلے کا کوئی حل نکلا؟ کیا ان خواتین کو انصاف ملا جنہوں نے اس پر احتجاج کیا۔ اور اگر انہیں انصاف ملا تو کیسے ملا؟ کیا جرگے نے ان لوگوں کو سزا دی جس نے اس رسم سے فائدہ اٹھایا؟''

وہ کہتی ہیں کہ عاطف اسلم کا کردار ہلمند، شیکسپیئر کے ہیملٹ سے مشابہت رکھتا تھا۔ لیکن اختتام میں وہ خود ٹھیک ہوگیا اور اس کے ماں باپ نے اچانک خود کشی کرلی۔ ان کے بقول نعمان اعجاز اور سامعہ ممتاز کے کرداروں کی خودکشی بالکل آؤٹ آف کریکٹر تھا۔

انہوں نے کہا کہ مصطفیٰ آفریدی اچھا لکھتے ہیں لیکن انہیں اس طرح ڈرامے کو ختم نہیں کرنا چاہیے تھا۔

XS
SM
MD
LG