رسائی کے لنکس

پشاور کے حساس علاقے سے لاپتا بچی کی تشدد زدہ لاش برآمد، سماجی کارکنوں کا اظہارِ تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے حساس علاقے سے لاپتا ہونے والی 11 سالہ بچی کی تشدد زدہ لاش برآمد ہونے پر بچوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں اور سماجی حلقوں نے شدید مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے۔

حکام کا کہنا ہے کہ 11 سالہ ماہ نور پشاور کے حساس اور محفوظ ترین علاقے کینٹ ریلوے اسٹیشن کی حدود سے لاپتا ہوئی تھی جس کی بعد ازاں پیر کو تشدد زدہ لاش برآمد ہوئی ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق بچی کے لواحقین کا الزام ہے کہ اسے قتل کرنے سے قبل زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا البتہ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بچی کی میڈیکل رپورٹ آنے پر اس کی تصدیق ہو سکے گی۔

پشاور کینٹ کے حساس علاقے میں کمسن بچی کے مبینہ قتل کا واقعہ ایک ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب پولیس کے اپنے اعداد و شمار سے واضح ہو رہا ہے کہ گزشتہ تین برس کے دوران خیبر پختونخوا میں بچوں سے زیادتی اور تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

خیبر پختونخوا میں بچوں کے ساتھ تشدد اور زیادتی کے واقعات (اعداد وشمار: پولیس)

سالبچے نشانہ بنےبچیاں نشانہ بنیںمجموعی واقعات
2021 311 49 360
2020 272 51 323
2019 135 50 185

ماہ نور مقامی اسکول میں تیسری جماعت کی طالبہ تھی۔ بچی کے والد نذیر احمد کا کہنا ہےتھا کہ ان کی کسی بھی شخص کے ساتھ کوئی ذاتی عداوت نہیں تھی۔

انہوں نے حکومت سےمطالبہ کیا ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے۔

نذیر احمد کا تعلق میانوالی سے ہے۔ وہ پشاور میں بیوی بچوں کے ہمراہ اپنے بھائی نصیر احمد کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے مطابق وہ گزر بسر کے لیے پشاور کے شیر شاہ سوری روڈ پر سڑک کے کنارے بیٹھ کر پلاسٹک اور لکڑی سے بنی ہوئی چھوٹی موٹی اشیا فروخت کرتے ہیں۔

بچی کی میانوالی میں تدفین کے بعد ان کے والد نذیر احمد منگل کو واپس پشاور پہنچے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اسکول میں تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ ماہ نور ان کے ہمراہ اشیا کی فروخت میں مدد بھی کرتی تھی۔

نذیر احمد کے بقول ان کے خاندان کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث عناصر کو گرفتار کر کے عدالتوں کے ذریعے سزا دی جائے۔

قبل ازیں بچی کے چچا نصیر احمد نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں بتایا تھا کہ ماہ نور اتوار کی شام لگ بھگ چھ بجے سودا سلف خریدنے ایک قریبی دکان پر گئی تھی۔ جب کافی دیر گزرنے کے بعد بھی وہ گھر واپس نہ آئی تو انہوں نے اس کی تلاش شروع کی۔ ان کے بقول اہل خانہ نے رات بھر بچی کو تلاش کیا البتہ ان کی کوششیں بے سود رہیں۔

نصیر احمد نے بتایا کہ پیر کو صبح لگ بھگ 11 بجے محلے کے بچوں نے ریلوے اسٹیشن کے قریب خالی پلاٹ میں جھاڑیوں میں بچی کی تشدد زدہ لاش کی نشاندہی کی۔

ان کے مطابق انہوں نے اہلِ علاقہ اور ریلوے اسٹیشن کےملازمین کے موجودگی میں لاش کو جھاڑیوں سے نکالا اور مقامی پولیس اسٹیشن میں واقعے کی رپورٹ درج کرائی ۔ جب کہ بچی کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کی گئی۔

نصیر احمد کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے جھاڑیوں سے بچی کی لاش نکالی تو اس کے سر اور جسم کے دیگر حصوں پر تشدد کے واضح نشانات موجود تھے ۔ ان کے مطابق یوں دکھائی دے رہا تھا کہ بچی کو بہت زیادہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا۔

اس حوالے سے خواتین کے حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ’عورت فاؤنڈیشن‘ سے منسلک صائمہ منیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں واقعے کی مذمت کی اور حکومت سے بچ کے مبینہ قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

صائمہ منیر کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ریاستی ادارے بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین پر عمل در آمد کرنے میں بظاہر کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔

صائمہ منیر مزید کہتی ہیں کہ ایسے واقعات کی تفتیش کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے۔ پولیس کی تفتیش میں سقم کا فائد ہ اٹھا کر ملزمان عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔

خیبر پختونخوا کی حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی رکن صوبائی اسمبلی اور خواتین کے حقوق کے لیے خیبرپختونخوا اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر سمیرا شمس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس واقعے کے فوری بعد انہوں نے پشاور کی پولیس کے سربراہ سے رابطہ کیا اور انہیں ملزمان کی گرفتاری کی ہدایت کی۔

سمیرا شمس کہتی ہیں کہ حال ہی میں صوبائی اسمبلی نے بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک ترمیمی بل منظور کیا ہے جس میں بچوں کے خلاف تشدد میں ملوث ملزمان کو سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔

بچی کے قتل کے حوالے سے پشاور کے تھانہ شرقی کے ایس ایچ او دوست محمد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ واقعے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔ تاہم ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

ایس ایچ او کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ہی واضح ہو سکے گا کہ بچی کی ہلاکت کیسے ہوئی۔

دوسری جانب پشاور میں پاکستان ریلوے کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کہ در خواست پر بتایا کہ بچی کو سر پر اینٹیں مار مار کر قتل کیا گیا۔

خیبر پختونخوا پولیس کےاعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین برس میں صوبے میں بچوں کی زیادتی اور ان کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

سال 2021 میں بچوں کے خلاف تشدد اور زیادتی کے 360 واقعات کا اندراج ہوا تھا جن میں 311 بچے اور 49 بچیاں نشانہ بنی تھیں۔اس سے قبل 2020 میں 272 بچوں اور 51 بچیوں کے خلاف تشدد اور زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے البتہ 2019 میں یہ تعداد حالیہ برسوں کے مقابلے میں کم تھی اور مجموعی طور پر 185 واقعات سامنے آئے تھے جن میں 135 بچوں اور 50 بچیوں کے خلاف تشدد اور زیادتی کے واقعات ہوئے تھے ۔

XS
SM
MD
LG