رسائی کے لنکس

ڈیورنڈ لائن سے کنٹرول لائن


پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر، جسے ڈیورند لائن بھی کہا جاتا ہے، پاکستان نے دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حرکت روکنے کے لیے آہنی باڑ نصب کر دی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد پر، جسے ڈیورند لائن بھی کہا جاتا ہے، پاکستان نے دہشت گردوں کی آزادانہ نقل و حرکت روکنے کے لیے آہنی باڑ نصب کر دی ہے۔

پاکستان نے اپنی ایک بریگیڈ فوج افغان سرحد سے کنٹرول لائن پر منتقل کر دی ہے۔ امریکہ طالبان مذاکرات ختم اور پاکستان کی افغان سرحد پر توجہ کم ہونے کے بعد بعض تجزیہ کار خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ سرحدی علاقوں میں دہشت گرد دوبارہ منظم ہو سکتے ہیں۔

پاک فوج کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کی ایکسٹریمزم واچ ڈیسک کی نفیسہ ہود بھائی کو بتایا کہ بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کی وجہ سے فوجی دستوں کو افغان سرحد سے کنٹرول لائن کی طرف بھیجا گیا ہے۔

ٹائمز آف انڈیا نے بھی بھارتی فوجی ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ پاکستان کی ایک بریگیڈ فوج کسی اور مقام سے کنٹرول لائن کے قریب منتقل ہوئی ہے۔

امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان نے گزشتہ ماہ نیویارک ٹائمز کو انٹرویو میں کہا تھا کہ پاکستان افغان سرحد سے اپنی فوج کشمیر کے محاذ پر منتقل کر سکتا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ جاوید اشرف قاضی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہر ملک اپنی ضرورت اور خطرات کے مطابق فوج کو متحرک کرتا ہے۔ جب ایک طرف خطرہ زیادہ ہو جائے تو فوجی دستوں کو وہاں منتقل کرنا پڑتا ہے۔ خطرہ کم ہو جائے گا تو فوجیوں کو دوسری طرف بھیج دیا جائے گا۔ بھارت کو کشمیر میں کوئی خطرہ نہیں لیکن اس نے وہاں سات لاکھ فوج رکھی ہوئی ہے بلکہ حال ہی میں مزید چالیس ہزار فوجی وہاں بھیجے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کی توجہ دونوں سرحدوں پر ہے لیکن ظاہر ہے کہ مشرقی سرحد پر زیادہ خطرات ہیں۔ امریکہ کو چاہیے کہ وہ اس صورت حال کو ڈی فیوز کرے اور صدر ٹرمپ وزیراعظم مودی سے کہیں کہ وہ اپنا جارحانہ رویہ ترک کریں۔

ایک امریکی تھنک ٹینک کاٹو انسٹی ٹیوٹ کی سحر خان کہتی ہیں کہ اگر پاکستان نے اپنے فوجی دستے منتقل کیے ہیں تو یہ پریشانی کی بات ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطرناک بات ہوتی ہے کیونکہ دونوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں۔

افغان سرحد پر فوج میں کمی سے دہشت گرد فائدہ تو نہیں اٹھائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں سحر خان نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر دہشت گرد موجود ضرور ہیں لیکن ان کی نقل و حرکت پہلے کی طرح دوبارہ شروع ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان دس سال سے اپنی سرحد کو محفوظ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔

جنرل قاضی نے کہا کہ پاکستان نے افغان سرحد کے ان بہت سے حصوں پر باڑ لگا دی ہے، جہاں سے دہشت گرد دراندازی کرتے ہیں، اسے محفوظ بنا لیا گیا ہے۔ اس کے بعد وہاں زیادہ فوجی دستے رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اب حالات ماضی کی طرف نہیں جا سکتے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کو امریکہ اور طالبان کے مذاکرات کے ختم ہونے کا بہت افسوس ہے۔ طالبان پاکستان کے زرخرید غلام نہیں ہیں۔ پاکستان بہت کوشش کر کے انھیں بات چیت کرنے پر راضی کرتا ہے۔ پتا نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کیوں ختم کیے۔ پاکستان امید کرتا ہے کہ وہ جلد دوبارہ مذاکرات بحال کریں گے کیونکہ اس خطے میں امن سب کی ضرورت ہے۔

XS
SM
MD
LG