رسائی کے لنکس

ڈھاکہ کی ململ: ماضی کا شاہی پہناوا دوبارہ بازار میں لانے کی کوششیں


ڈھاکہ ململ کی تیاری میں کاری گروں کے دستِ ہنر کی مہارت تو ایک راز تھا ہی لیکن کپاس کا وہ خاص پودا جس کے دھاگے سے یہ کپڑا تیار کیا جاتا تھا وہ بھی ناپید ہوگیا۔
ڈھاکہ ململ کی تیاری میں کاری گروں کے دستِ ہنر کی مہارت تو ایک راز تھا ہی لیکن کپاس کا وہ خاص پودا جس کے دھاگے سے یہ کپڑا تیار کیا جاتا تھا وہ بھی ناپید ہوگیا۔

ڈھاکہ کی ململ کے بارے میں یہ بات نانی دادیوں کی کہانیوں اور قصوں کی طرح سینہ بہ سینہ چلی آتی ہے کہ یہ اس قدر باریک اور ہلکا پھلکا کپڑا ہوا کرتا تھا کہ اس کا پورا تھان ایک ماچس کی ڈبیا میں آجاتا تھا۔ یورپ میں ڈھاکہ کی ململ کے بارے میں یہ تصور عام تھا کہ تیز روشنی یا بارش کی پھوار اس کومل اور نازک کپڑے سے بنے ملبوسات پہننے والوں کو آشکار کرسکتی ہے۔

ماہر کاریگروں کے ہنر کا یہ شاہکار دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ڈھاکہ ململ کی تیاری میں کاری گروں کے دستِ ہنر کی مہارت تو ایک راز تھا ہی لیکن کپاس کا وہ خاص پودا جس کے دھاگے سے یہ کپڑا تیار کیا جاتا تھا وہ بھی ناپید ہوگیا تھا۔

اس کپڑے نے دنیا میں بنگال کی کپڑا بننے (پارچہ بافی) کی صںعت کو عالم گیر شہرت عطا کی اور اس کی تجارت سے یہ خطہ خوش حال ہوا۔ شاہی پوشاک بننے والا یہ کپڑا چند عجائب خانوں اور تاریخ کے تذکروں میں ہی باقی رہ گیا ہے۔

لیکن بنگلہ دیش میں اب اس تاریخی ورثے کو بحال کرنے کے لیے کوششوں کا آغاز ہوا ہے اور سب سے پہلے کپاس کی اس خاص قسم کی تلاش کی گئی ہے جس سے یہ کپڑا بنایا جاتا تھا۔

ڈھاکہ ململ کیسے نایاب ہوئی؟

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے ڈھاکہ ململ کی صنعت کو دوبارہ زندہ کرنے کے منصوبے پر کام کرنے والے ایک سینئر عہدے دار منظور حسین کے مطابق کپاس کی وہ خاص قسم کا پودا ناپید ہوچکا ہے جس سے حاصل ہونے والی روئی سے یہ کپڑا تیار کیا جاتا تھا۔

مؤرخین کے مطابق ململ کی فروخت سے اس دور کے بنگال اور آج کے بنگلہ دیش میں دولت کی ریل پیل تھی۔ بنگال میں پارچہ بافی پر تحقیق سے متعلق ویب سائٹ ’مسلین ڈھاکہ‘ کے مطابق 14 ویں صدی میں پوری دنیا کی معیشت میں جب برطانیہ کا حصہ صرف دو فی صد تھا اس وقت ڈھاکہ کی ململ کی تجارت بین الاقوامی معیشت میں 14 سے 55 فی صد کی حصے دار تھی۔

ویب سائٹ کے مطابق صرف موجودہ ڈھاکہ ڈسٹرکٹ میں واقع تاریخی شہر سونارگاؤں سے ململ کی برآمدات اس دور میں لاکھوں روپے کی تھی۔

کسی دور میں شاہوں کی پوشاک رہنے والا یہ کپڑا اب عجائب خانوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ فائل فوٹو۔
کسی دور میں شاہوں کی پوشاک رہنے والا یہ کپڑا اب عجائب خانوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ فائل فوٹو۔

تئیس جون 1757 کو جنگِ پلاسی میں نواب سراجہ الدولہ کی شکست کے بعد بنگال ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط میں آ گیا۔ سراج الدولہ کے بعد آںے والے بنگال کے نواب نے ململ کی تیاری کی صنعت کمپنی کے سپرد کر دی تھی۔ اس سال بھی اندازاً 29 کروڑ روپے مالیت کی ململ دنیا بھر میں فروخت ہوئی۔ لیکن اٹھارہویں صدی کے آخر تک ململ کی برآمدات نصف سے بھی کم ہوگئیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ اس خاص ململ کے کپڑے کی تیاری پر آنے والی لاگت کی وجہ سےاس کی قیمت بہت زیادہ ہوتی تھی اور یہ صرف بادشاہوں، نوابین اور رئیسوں کی دسترس میں تھا یا اس کی برآمد سے منافع حاصل کیا جاسکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس صنعت کو برقرار رکھنے کے لیے سرکاری سرپرستی درکار تھی۔

ململ جس طرح بنگال کے لیے خوش حالی لائی تھی اسی طرح اس نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے منافعے میں بھی بے پناہ اضافہ کیا تھا۔ لیکن یہ صنعتی انقلاب کا دور تھا اور برطانیہ میں کپڑا تیار کرنے والی بڑی بڑی ملیں اور فیکٹریاں لگ رہی تھیں۔

برطانیہ اپنی صنعتوں میں تیار ہونے والے سستے کپڑے کی فروخت کو عام کرنا چاہتا تھا۔ بنگال میں کپڑا سازی کی صنعت میں جدت تو نہیں آئی تھی لیکن اپنے معیار کی وجہ سے ململ کو دنیا بھر پسند کیا جاتا تھا اور یہ خاصے کی چیز تصور ہوتی تھی۔

اسی لیے برطانوی حکومت نے بنگال میں ڈھاکہ ململ کی صنعت کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا۔ 1857 کے بعد ہندوستان میں مغل سلطنت کا بھی خاتمہ ہوگیا جو کہ اس کپڑے کے بڑے خریدار اور پرستار تھے۔

بنگلہ دیش میں اس کپڑے کی صنعت کے احیا کے لیے کوششیں گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں۔
بنگلہ دیش میں اس کپڑے کی صنعت کے احیا کے لیے کوششیں گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں۔

بنگال کے نوابین ڈھاکہ کی ململ مغل شہنشاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے انہیں تحفے میں پیش کرتے تھے۔بعض تواریخ میں یہ بات بھی بیان کی گئی ہے کہ مغل شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاں اس ململ کو بہت پسند کرتی تھیں اور انہوں نے اسے شاہی حرم میں رواج دیا تھا۔

مقامی سطح پر نوابین ڈھاکہ نے اس صنعت کی سرپرستی کرنے کی کوشش کی لیکن برطانیہ نے بنگال میں صرف اپنی تیار کردہ مصنوعات کو رواج دینے کے لیے مقامی مصنوعات کی حوصلہ شکنی کی۔ اسی لیے ململ کی برآمد پر بھی بھاری ٹیکس نافذ کیے۔ اس کے نتیجے میں یہ کپڑا ماضی کی ایک داستان بن کر رہ گیا۔

بعض مؤرخین کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی نے ململ تیار کرنے والے کاریگروں کو سزائیں بھی دیں۔ تاریخ میں جیمز ٹیلر کی دستاویز کا تذکرہ بھی ملتا ہے جس کے مطابق ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایسے 700 کاریگروں کے انگوٹھے کاٹ دیے تھے جنہوں نے ململ تیار کرنے کا کام چھوڑنے سے انکار کردیا تھا۔

ڈھاکہ ململ کی تیاری میں استعمال ہونے والی کپاس کی خاص قسم نایاب ہونے کے بارے میں مؤرخین کا کہنا ہے ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں نیل کی کاشت کے لیے کپاس کی فصل کا بڑے پیمانے پر خاتمہ کردیا تھا ۔ نیل کے علاوہ کپاس یا کوئی اور فصل کاشت کرنے والوں کو اراضی سے محروم کردیا جاتا تھا۔ ان پابندیوں کی وجہ سے ململ تیار کرنے والے ہنرمندوں کی طرح کپاس کا وہ پودا بھی ناپید ہو گیا۔

کم یاب نہیں نایاب

بنگلہ دیش میں ڈھاکہ ململ کی بازیافت کے اس سفر میں سب سے پہلے پانچ سال صرف کپاس کے اس پھول کی تلاش پر صرف ہوئے جو صرف ڈھاکہ کے نواح میں پروان چڑھ سکتا ہے۔

اس منصوبے سے جڑے ماہر نباتات منظور حسین کا کہنا ہے کہ یہ ململ صرف پھٹی کارپس کاٹن ہی سے تیار کی جاسکتی ہے۔ اس لیے ڈھاکہ کی ململ کے احیا کے لیے ممکنہ طور پر ختم ہوجانے والے اس پودے کی دوبارہ تلاش ضروری تھی۔

منظور حسین اور ان کی ٹیم نے اٹھارہویں صدی میں پودوں سے متعلق سوئیڈن سے تعلق رکھنے والے محقق کال لینائیس کی کتاب اور ڈھاکہ ململ سے متعلق تاریخی کتابوں کی چھان بین کی۔ اس کے بعد پورے بنگلہ دیش میں 39 مختلف اقسام کے کپاس کے ایسے پودوں کا انتخاب کیا گیا جو ممکنہ طور پر ڈھاکہ ململ کی تیاری کے لیے موزوں ہوسکتے تھے۔

کپاس کی اس خاص قسم کی تلاش میں پانچ برس کی تحقیق صرف ہوئی جس سے ڈھاکہ ململ تیار کی جاتی تھی۔
کپاس کی اس خاص قسم کی تلاش میں پانچ برس کی تحقیق صرف ہوئی جس سے ڈھاکہ ململ تیار کی جاتی تھی۔

بنگلہ دیش کے مقامی عجائب گھروں میں ڈھاکہ ململ کے نمونے موجود نہیں ہیں۔ اس کے لیے منظور اور ان کے ساتھیوں کو مصر، بھارت اور برطانیہ سے نمونے حاصل کرنا پڑے۔

لندن کے وکٹوریہ اور البرٹ میوزیم میں انہیں ململ کے ایسے سیکڑوں پارچے ملے جو مغل دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجر برطانیہ لائے تھے۔ان نمونے کے جینیاتی تجزیے سے معلوم ہوا کہ ململ کی تیاری میں استعمال ہونے والا گم شدہ پودا پہلے ہی ڈھاکہ کے شمال میں کپاسیا کے قصبے میں دریافت ہوچکا ہے۔

منظور حسین کے مطابق یہ اس کے نمونے سو فی صد ململ کے پرانے پارچوں میں استعمال ہونے والی روئی سے ملتے ہیں۔اس کے علاوہ تاریخ کی کتابوں سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کپاسیا ان علاقوں میں شامل ہے جہاں پھٹی کارپس کاشت کی جاتی تھی۔

بنگلہ دیش میں تجرباتی بنیادوں پر کپاس کی اس قسم کی پیداوار کاشت شروع ہو چکی ہے۔ لیکن ململ کی تیاری شروع کرنے میں ایک اور بڑی مشکل اس کے کاریگروں کی تلاش تھی۔

ڈھاکہ ململ کی تیاری کے لیے ہنر مندوں کی تلاش

گزشتہ دو صدیوں میں ململ کی تجارت ختم ہونے کے بعد بنگلہ دیش ایک بار پھر ٹیکسٹائل صنعت کے بڑے مراکز میں شامل ہو چکا ہےلیکن اب اس کا میدان مختلف ہے۔

ڈھاکہ میں بے شمار فیکٹریاں ہیں جو عالمی شہرت یافتہ برینڈز کے لیے جدید فیشن کے ملبوسات تیار کرتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی کپڑوں اور ملبوسات کی سالانہ برآمدات ساڑھے 35 ارب ڈالر ہیں۔ لیکن یہاں وہ ململ تیار نہیں ہوسکتی جس میں ایک تار کم یا زیادہ ہونے سے کپڑے کا معیار گر جاتا ہے۔

بنگلہ دیش میں گارمنٹس ورکرز کی کمی نہیں ہے لیکن ململ کی تیاری کے لیے ایسے کاریگروں کی ضروت تھی جو گھریلو صنعتوں کی سطح پر اس نازک کپڑے کی تیاری کا صبر آزما کام کرسکتے ہوں۔

جامدانی کی ساڑی بنانے والے کاریگروں کو ململ کی تیاری کی تربیت دی جارہی ہے۔
جامدانی کی ساڑی بنانے والے کاریگروں کو ململ کی تیاری کی تربیت دی جارہی ہے۔

اس کے لیے منصوبہ سازوں نے ڈھاکہ کے نواحی دیہات سے جامدانی کے کپڑے سے تیار کی گئی ساڑیاں بنانے والے ہنرمندوں کا انتخاب کیا۔ جامدانی بھی سوتی کپڑا ہے جو ململ کی طرح ہاتھوں سے تیار کیا جاتا ہے۔

اس منصوبے سے منسلک ہونے والی ایک کاریگر محسنہ اختر کا کہنا ہے کہ میں یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ کام کیسے کیا جاتا ہے۔ اس کپڑے کی بنائی کے لیے مکمل توجہ درکار ہوتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کپڑے کی بُنائی میں اس باریک بینی سے کام کرنا پڑتا ہے کہ اگر آپ ذہنی طور پر الجھن کا شکار ہوں، غصے میں ہوں یا پریشان ہوں تو یہ کام نہیں کرپائیں گے۔

ان ہنرمندوں کو مہینوں تک ململ کی بنائی کی تربیت دی گئی۔اس کپڑے کی تیاری میں درکار باریک بینی کی وجہ سے پہلی مرتبہ صرف ایک انچ کپڑے کی بُنائی میں آٹھ گھنٹے لگے۔کپڑے کی بنائی کرنے والے ایک اور کاریگر ابو طاہر کا کہنا ہے اس میں ذرا سی غفلت سے سوت بکھر جاتا ہے اور پوری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ میں یہ کام کرنا نہیں جانتا تھا۔ جب اسے کرنا شروع کیا تومجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے بزرگ کس طرح اتنا شان دار کپڑا تیار کرتے تھے کیوں کہ ہمیں تو یہ ناممکن لگتا ہے۔

ڈھاکہ کی ململ ہمیشہ ہی عام لباس کے بجائے دولت مند طبقے کے لیے تیار کی جاتی تھی۔ جس طرح آج کچھ کپڑے خاص بوتیکس ہی کی زینت بنتے ہیں۔ لیکن اس بار بنگلہ دیش کی حکومت ملبوسات کے شعبے کے بڑے ناموں کو اس کپڑے کی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

بنگلہ دیش میں کپڑوں کے کاروبار سے منسلک پرویز ابراہیم کا کہنا ہے کہ ہم اس کپڑے کو دنیا کا ٹاپ فیشن آئٹم بنانا چاہتے ہیں۔ اس کی ایک شان دار تاریخ ہے۔

لیکن ان کا خیال ہے کہ اس کپڑے کی قیمت کم کرنے کے لیے اس کی تیاری کا عمل تیز کرنا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر ڈھاکہ ململ کی صنعت کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوششیں بے معنی ہوجائیں گی۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG