مصر نے مصری نژاد امریکی کو ملک بدر کر دیا ہے، جِس سے قبل وہ تقریباً دو برس قید کاٹ چکا ہے۔ اُن پر ممنوعہ اخوان المسلمین سے سازباز کا الزام تھا۔
مصر کے حکام نے 27 برس کے محمد سلطان پر زور بار ڈالا کہ وہ مصر سے امریکہ روانہ ہونے سے پہلے اپنی مصری شہریت سے سبک دوش ہو۔
اپنی قید کی میعاد میں کی جانے والی بار بار کی توسیع پر احتجاج کرتے ہوئے، وہ پچھلے 16 ماہ سےزائد عرصے سے بھوک ہڑتال پر تھے اور اُن کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اُن کی صحت تیزی سے بگڑتی جا رہی تھی۔
سلطان نے امریکہ کی اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی سے گریجیوئیشن کیا ہوا ہے۔ اور وہ صدر براک اوباما کے انتخابی مہم میں شرکت کر چکے ہیں۔
اُن کو مصر میں حکومت مخالف دھرنے کے لیے مالی معاونت فراہم کرنے اور سنہ 2013 میں فوج کی طرف سے منتخب اسلام پسند صدر محمد مرسی کا تختہ الٹنے سے متعلق ’غلط خبر‘ پھیلانے کے الزام پر عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ اُن کے والد، صلاح اخوان المسلمین کے ایک معروف رکن ہیں جنھیں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
احتجاجی مظاہروں کے دوران، محمد سلطان امریکی اور بین الاقوامی خبروں سے متعلق اداروں میں معاون اور مترجم کا کام کرتے رہے۔ وہ اُن ہزاروں افراد میں شامل ہیں جنھیں فوج کے اقتدار میں آنے کے بعد قید کیا گیا، جو صورت حال آخر کار ملک کے دفاع کے سربراہ عبدل الفتاح السیسی کے صدر منتخب ہونے پر منتج ہوئی۔
رہائی پانے کے بعد، براستہ فرینک فرٹ، سلطان امریکہ آنے والی ایک پرواز میں سوار ہوئے۔
امریکی محکمہٴخارجہ نے اُن کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات پر خوشی ہے کہ وہ امریکہ میں اپنے خاندان کے ساتھ آن ملیں گے۔ سلطان کے اہل خانہ نے اُن حضرات کا شکریہ ادا کیا ہے جنھوں نے اُن کی رہائی کی کوشش میں مدد کی، اور بتایا ہے کہ امریکہ آمد پر اُن کا فوری علاج ہوگا۔