رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں تشدد: سات شہریوں سمیت 11 افراد ہلاک


حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ احتجاج کے دوران مظاہرین تشدد پر اُتر آئے اور سکیورٹی فورسز کے دستوں پر پتھراؤ کرکے عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرکاری فورسز کی فائرنگ سے کم سے کم سات عام شہری ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔

واقعہ شورش زدہ ریاست کے جنوبی ضلع پُلوامہ کے کھرپورہ سرنو نامی گاؤں میں ہفتے کو پیش آیا۔

اس سے قبل گاؤں کے ایک گھر میں موجود عسکریت پسندوں اور بھارتی فوج کے درمیان جھڑپ ہوئی تھی جس میں تین مشتبہ عسکریت پسند اور ایک فوجی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق جھڑپ ابھی جاری تھی کہ مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سڑکوں پر آ کر بھارت مخالف مظاہرے کیے۔

مظاہرین نے محصور عسکریت پسندوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان کے اور بھارت سے آزادی کے مطالبے کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔

حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ احتجاج کے دوران مظاہرین تشدد پر اُتر آئے اور سکیورٹی فورسز کے دستوں پر پتھراؤ کرکے عسکریت پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کیں۔

ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ جب بھارتی فوجی دستے آپریشن کے اختتام پر علاقے سے واپس روانہ ہو رہے تھے تو ان کی ایک گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی جسے مظاہرین نے گھیرے میں لے کر اس پر شدید پتھراؤ کیا۔

کئی شدید زخمیوں کو طبی امداد کے لیے سرینگر منتقل کیا گیا ہے۔
کئی شدید زخمیوں کو طبی امداد کے لیے سرینگر منتقل کیا گیا ہے۔

مظاہرین کے پتھراؤ پر گاڑی میں موجود فوجیوں نے مشتعل ہجوم پر فائرنگ کردی جس سے کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے۔

مقامی لوگوں نے فوج پر مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

فائرنگ میں مارے گئے شہریوں کی شناخت شہباز علی، سہیل احمد، لیاقت احمد، مرتضیٰ احمد، عامر احمد پلہ، عابد حسین اور توصیف احمد میر کے ناموں سے ہوئی ہے۔

مقامی افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ فائرنگ اور جھڑپوں کے دوران زخمی ہونے والوں کی تعداد 50 سے 60 کے درمیان ہے جن میں سے کئی ایک کے چھرے لگے ہیں۔

شدید زخمی ہونے والے کم سے کم 15 افراد کو علاج کے لیے سرینگر کے اسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔

سرینگر میں پولیس اور فوج کے حکام نے بتایا ہے کہ کھرپورہ سرنو میں فوجی آپریشن گاؤں کے ایک گھر میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی معلومات ملنے پر شروع کیا گیا تھا جس میں بھارتی فوج کی 55 راشٹریہ رائفلز، مقامی پولیس کے عسکریت مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) اور بھارت کی وفاقی پولیس فورس (سی آر پی ایف) نے حصہ لیا۔

پولیس ذرائع نے مارے گئے عسکریت پسندوں کی شناخت ظہور احمد ٹھوکر، عدنان حمید بٹ اور بلال احمد ماگرے کے ناموں سے کی ہے اور کہا ہے کی تینوں مقامی کشمیری تھے۔

ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ ظہور احمد ٹھوکر ایک سابق فوجی تھا جو کچھ عرصہ پہلے بھارتی فوج کو چھوڑ مقامی عسکری تنظیم 'حزب المجاہدین' میں شامل ہوگیا تھا۔

سرینگر میں بھارتی فوج کے ترجمان کرنل راجیش کالیہ نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ جھڑپ کے دوران شدید زخمی ہونے والا ایک فوجی اسپتال میں چل بسا ہے جب کہ دو فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

عسکریت پسندوں اور شہریوں کی ہلاکت کے خلاف مسلم اکثریتی وادئ کشمیر کے کئی علاقوں میں عوامی مظاہرے پھوٹ پڑے ہیں۔

چند علاقوں سے جن میں شمال مغربی شہر سوپور بھی شامل ہے مظاہرین اور پولیس کے درمیان تصادم ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔

خاص طور پر جنوبی کشمیر کے علاقوں میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔ حکام نے پلوامہ قصبے میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کردیا ہے اور انٹر نیٹ سروسز بھی معطل کردی گئی ہیں۔

اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی ہلاکت پر مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے ہلاکتوں پر سوگ منانے اور احتجاج کے لیے ہفتے سے تین دن کی عام ہڑتال کی اپیل کردی ہے۔

سرکاری فورسز کی فائرنگ سے کم از کم سات شہری ہلاک
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:22 0:00

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG