رسائی کے لنکس

سچی کہانیوں اور حقیقی واقعات پر فلمیں بنانے کا نیا رجحان


سچی کہانیوں اور حقیقی واقعات پر فلمیں بنانے کا نیا رجحان
سچی کہانیوں اور حقیقی واقعات پر فلمیں بنانے کا نیا رجحان

بالی ووڈ کی نئی فلموں کے حوالے سے اکثر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ ان میں اب کہانی نہیں ہوتی ۔ لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ آج کا پروڈیوسر کہانی حاصل کرنے کے لئے نئے نئے تجربات ضرور کرتا ہے ۔بہت زیادہ پیچھے نا جاتے ہوئے 2010ء سے بات کا آغاز کریں تو ان دوسالوں میں بالی ووڈ کی فلموں میں ایک نیا تجربہ کیا ہے اور وہ ہے۔۔حقیقی اور سچے واقعات پر فلم بنانا۔ ان دوسالوں میں متعدد فلموں پر "حقیقی سنیما" کا لیبل لگا اور ایسا لگا کہ آج ہر دوسرا تیسرا پروڈیوسر اس کی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے سچے واقعات پر فلم بنارہا ہے۔ چاہے وہ بہت کمزور اسکرپٹ والی فلم "مونیکا "ہو یا ”ونس اپون اے ٹائم ان ممبئی "‘ جیسی ہٹ فلم ہو۔

رام گوپال ورما ہمیشہ نئے موضوعات کو آزمانے کے لئے مشہور ہیں۔ ان موضوعات کو اپناتے اپناتے کبھی کبھی وہ اس قدر جذباتی بھی ہوجاتے ہیں کہ فلم کے حوالے سے کوئی نہ کوئی تنازع کھڑا ہوہی جاتا ہے ۔۔۔لیکن اس کا ایک فائدہ بھی انہی کو پہنچتا ہے ۔ ان کی فلم ہر جگہ چرچے کا سبب بنتی ہے اور فلم کو دیکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد مفت میں مل جاتی ہے۔ گویا یہ بھی فلم کی پروموشن کا ایک طریقہ بن جاتا ہے۔

رام گوپال ورما کی ایک فلم "نوٹ آلواسٹوری " پچھلے ہفتے ہی ریلیز ہوئی ہے۔ فلم کی کہانی حقیقی زندگی سے تعبیر ہے ۔ 2008ء میں ہونے والے قتل کے گرد گھومتی اس کہانی کے کردار بھارتی معاشرے میں آج بھی موجود ہیں۔ ماریہ سوراج قاتل کی اصل بیوی ہے اور رام گوپال ورما نے فلم بنانے سے پہلے باقاعدہ ان سے ملاقات بھی کی تھی ۔ قتل کا یہ سنسنی واقعہ عرصے تک اخبارات کی شہ سرخیاں بنتا رہا اور میڈیا نے اسے اس قدر کوریج دی کہ آج بچہ بچہ اس کیس سے واقف ہے۔

رام گوپال ورما کے مطابق انھیں فلم میں ایک قاتل کو کاسٹ کرنے کی وجہ سے ہر ہر لمحے اس پر نظر رکھنی پڑتی تھی اور اس کو کام سے لگائے رکھنے کی خاطر 26/11 کے واقعے کے بعد تاج محل ہوٹل کی سیر بھی کرانی پڑی تھی۔

"نوون کلڈ جیسیکا"بھی سچے واقعے پر بنائی گئی تھی۔ جیسیکا لال قتل کیس بھی بھارت کا نہایت مشہور مرڈر کیس تھا۔ فلم میں وودیابالن اور رانی مکھرجی نے اہم رول ادا کئے تھے ۔ فلم کا حقیقی کردار سبرینا لال بھارت میں ہی موجود ہے ۔ سبرینا لال جیسیکا کی بہن تھی اور اس نے بالی ووڈ والوں کو فلم بنانے کی اجازت محض اس وجہ سے دی تھی کہ اس کی بہن دنیا کے سامنے بے قصور ثابت ہوسکے۔ "نوون کلڈ جیسیکا"راج کمار گپتا نے بنائی تھی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈائریکٹرز اور پروڈیوسرز کے پاس تمام کہانیاں ختم ہوگئی ہیں جو وہ حقیقی زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر فلمیں بنانے کی طرف راغب ہو رہے ہیں؟

ایک فلم بین کے مطابق اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کئی برسوں سے کیبل ٹی وی اور ہالی ووڈ کی فلموں نے پرانی فارمولا فلموں کو دیکھنا مشکل بنا دیا ہے اور فلمساز اور ہدایتکار نئے موضوعات پر ایسی فلمیں بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جن میں نہ صرف پرانی فلموں جیسی کشش موجود ہو بلکہ جن کی نمائش پر سنیما ہاؤس فل ہو جائے۔

حقیقی کہانیوں پر بننے والی اکثر فلمیں توامیدوں کے باوجود ناکام ہوگئیں جبکہ اپوروا لاکھیا کی فلم ”شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈوالا“نے کسی حد تک بزنس کیا۔ یہ فلم کسی حد تک ایک گینگسٹر مایا دولاس کی کہانی پر مبنی تھی۔ اس کے برعکس رام گوپال ورما کی ”رکت چکر“ ناکام ہوگئی تھی جو آندھرا پردیش کے ایک سیاسی رہنما پریتالا رویندر کی زندگی پر مبنی تھی۔

لیکن صرف انہی فلموں نے پوری بالی ووڈ میں فلموں کے رجحان اور انداز کو تبدیل نہیں کیا۔ گلزار کی فلم ”آندھی“ بھی ایسی ہی سچی کہانی پر مشتمل تھی جس کے بارے میں یہ کہا جا تاتھا کہ بھارتی کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کی زندگی پر بنائی گئی ہے ۔1977ء میں جب بھارت میں ایمر جنسی لگی تو اس فلم پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔

سچی کہانیوں پر مبنی ایک اور فلم بنی تھی " الرٹ"لیکن یہ فلم بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔ اس کی ناکامی اس بات کا ثبوت تھا کہ فلموں میں کہانی ہی سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔

فلم ”بلیک فرائیڈے“بھی مکمل طور پر حقیقت پر مبنی تھی۔ اس کی کہانی 1993ء میں ہونے والے ممبئی دھماکوں اور ان کے لواحقین کے گرد گھومتی ہے۔ اس فلم میں حقیقت نگاری کا اندازہ انوراگ کشیپ کی فلم دیکھے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ ممبئی دھماکوں پر بے شمار کتابیں بھی لکھی گئیں مگر جو تاثر"بلیک فرائیڈے "نے پیدا کیا وہ سب سے جدا تھا۔

XS
SM
MD
LG