رسائی کے لنکس

پاکستان اور بھارت کی’ تفریحی دنیا‘ ایک ہوگئی


EntertainmentWorld_main
EntertainmentWorld_main

ایک فلم، ایک دن، ایک جمعے اور ایک ہی تاریخ پر دونوں جگہ ریلیز ہوتی ہے۔ جو گانا بھارت میں ہٹ ہوتا ہے وہی پاکستان بھر میں گایا اور بجایا جانے لگتا ہے

پاکستان اور بھارت کی’ تفریحی دنیا‘ سرحدوں کی قید سے آزاد ہوگئی ہے۔ اب یہاں سرحدیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ خطہٴ زمین، زبان، رہن سہن اور کلچر تو ایک جیسا تھا ہی اب دونوں ممالک کی عوام کے تفریخ کے ذرائع بھی ایک ہوگئے ہیں۔

ایک فلم، ایک دن، ایک جمعے اور ایک ہی تاریخ پر دونوں جگہ ریلیز ہوتی ہے۔ جو گانا بھارت میں ہٹ ہوتا ہے وہی پاکستان بھر میں گایا اور بجایا جانے لگتا ہے۔

ممبئی میں بننے والی فلمیں پاکستان میں اس قدر مقبول ہیں کہ ان کے آگے لاہور فلم انڈسٹری تو گویا ماضی کی بات ہوگئی ہے۔

سال 2012ء کی ہی مثال لے لیں۔ پاکستان میں بھارتی فلموں کی پروموشن سے وابستہ کمپنی ’انسائیکلو میڈیا‘ کی سربراہ عمارہ کے مطابق اس سال بھارت کی تقریباً100فلمیں ریلیز ہوئیں، جب کہ اس کے مقابلے میں صرف نو پاکستانی اردو و پنجابی فلمیں ریلیز ہوئیں۔

ان فلموں کو پاکستان میں ریلیز کرنے کی اجازت صرف ایک ’حکومت‘ پرانی ہے۔ موجودہ حکومت سے پہلے کے سربراہ پرویز مشرف نے ان فلموں کو پاکستان میں ریلیز کرنے کی باقاعدہ اجازت دی تھی، جبکہ حیران کُن طور پر بھارتی موسیقی کی پاکستان میں آمد 80ء کے عشرے سے جاری ہے۔

یہ ضیاٴالحق کے مارشل لا کا دور تھا۔ ا

ُس دور میں بھارتی آڈیو کیسٹس کراچی کی ویگنوں اور بسوں میں بجنا شروع ہوئیں اور رفتہ رفتہ وی سی آر اور ’گیت مالا‘ کی بدولت اپنا دائرہ بڑھاتی چلی گئیں۔ اور آج صورتحال یہ ہے کہ بھارت کی پہلی میوزیکل فلم سےلیکر پچھلے جمعہ تک ریلیز ہونے والی ہر فلم کے گانے ملک کے کونے کونے میں ذوق و شوق سے سنے جاتے ہیں اور بچہ بچہ ان گانوں اور گانے والوں سے واقف ہے۔

دونوں ممالک میں ایک ہی طرح کے میوزک کی اس قدر پذیرائی کے سبب اب مشترکہ میوزیکل ٹی وی شوز بھی عام بات ہوگئی ہے۔

ان دنوں بھی ایک پاکستانی چینل ’جیو‘ اور ایک بھارتی چینل ’سرشیتر‘ مشترکہ طور پر پیش کررہے ہیں۔ اس پروگرام کے دو ججز عاطف اسلم اور عابدہ پروین پاکستانی جبکہ ایک انڈین اور ایک بنگلہ دیشی جج (آشابھونسلے اور رونا لیلیٰ‘) ہیں۔

فلمیں تو فلمیں، پاکستان کے نجی ٹی وی چینلز پر بھی ان دنوں بھارتی ڈراموں، فلموں اور پروگراموں کی بھرمار ہے ۔’کون بنے گا کروڑ پتی‘، ’انامیکا‘، ’بڑے اچھے لگتے ہیں’، ’جھلک دکھلاجا‘، ’دس کا دم‘، ’بگ باس‘، وغیرہ۔

ان پروگرامز کی پاکستان میں پذیرائی کے حوالے سے نجی ٹی وی ’سی این بی سی‘ پاکستان کے ایک اہلکار محمد اسد خان کا ’وائس آف امریکا‘ سے بات چیت میں کہنا تھا:
’بھارتی ٹی وی چینلز آج کل کیبل پر نہیں دکھائے جارہے، جبکہ مذکورہ پروگرامز کو دیکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ لہذا، جب انڈین پروگرامز اور ڈرامے نجی چینلز پر دکھائے جاتے ہیں تو ریونیو کہیں کا کہیں جا پہنچتا ہے۔ اشتہارات خوب ملتے ہیں اور چینلز کامنافع بھی ’پھیلتا ‘چلا جاتا ہے۔‘

ان دنوں بھارتی اشتہارات نے بھی پاکستانی ٹی وی اسکرین پر اپنا ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔ مثلاً ’ہالز‘، ’بروک بانڈریڈ لیبل ٹی‘۔ ان اشتہارات میں کام کرنے والے آرٹسٹ بھی ظاہر ہے بھارتی ہی ہیں۔ ماضی میں بھی ایسا متعدد بار ہوچکا ہے۔ اور ان پر پابندی بھی لگتی رہی ہے۔ البتہ، اس بار ان اشتہارات میں پاکستانی ویورز کو باقاعدہ مخاطب کیا جانے لگا ہے۔ مثل،اً بروک بانڈ ریڈ لیبل کے اشتہار میں اکشے کمار اور سوناکشی سنہا نے خاص طور سے پاکستانی عوام کو مخاطب کرکے اسپانسرز کا پیغام ان تک پہنچایا ہے۔

یہ اشتہار اس بات کی دلیل ہے کہ دنوں ممالک کی تفریخ، پسند اور سوچ کا انداز ایک جیسا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھارتی فنکار جس تیزی سے پاکستان آجارہے ہیں ماضی میں ایسا کم کم ہی ہوا ہے۔ مثلاً، حالیہ مہینوں میں نصیرالدین شاہ نے دو مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا۔ جوہی چاولہ بھی دو تین مرتبہ پاکستان آچکی ہیں۔ شتروگھن سنہا تو پاکستان کو اپنا دوسرا گھر قرار دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار بھارتی فنکاروں نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔

یہی حال پاکستانی فنکاروں کا بھی ہے۔

گزشتہ 20یا 25سالوں میں انگنت پاکستانی فنکاروں نے بھارت یاترا کی ہے۔

جب بھی دونوں ممالک کے فنکار ایک دوسرے کے ممالک میں قدم رکھتے ہیں پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا انہیں بھرپور کوریج دیتا ہے۔ آج پاکستان کا شاید ہی کوئی اخبار یا رسالہ ایسا ہو جس میں بھارتی انٹرٹینمنٹ کی خبریں اور رپورٹس شائع نہ ہوتی ہوں ۔ یہی حال ویب سائٹس کا بھی ہے۔ بے شمار پاکستانی ویب سائٹس پر تواتر کے ساتھ بھارتی فلم انڈسٹری اور ٹی وی کی ہر خبر اور ہر سرگرمی شائع ہوتی ہے۔
XS
SM
MD
LG