رسائی کے لنکس

کرونا وبا سے ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں کی مشکلات میں اضافہ


لاکھوں شامی باشندے دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد ترکی میں بھی پناہ لیے ہوئے ہے۔
لاکھوں شامی باشندے دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد ترکی میں بھی پناہ لیے ہوئے ہے۔

کرونا وائرس کی وبا نے ترکی میں موجود لاکھوں شامی پناہ گزینوں کو مزید غربت میں دھکیل دیا ہے اور ان پر قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔

مارچ 2011 میں جب سے شام کی خانہ جنگی کا آغاز ہوا ہے، لاکھوں شامی باشندے اپنے ملک سے دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد ترکی میں بھی پناہ لینے پر مجبور ہوئی۔

شام کی خانہ جنگی تو ختم نہیں ہوئی مگر کرونا وائرس کی وباء نے ان پناہ گزینوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

ترک ریڈ کریسنٹ اور انٹر نیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ نے اس بارے میں ایک تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے۔

ترکی میں اس وقت پناہ گزینوں کی تعداد 40 لاکھ ہے جن کی اکثریت شام کی خانہ جنگی سے بھاگ کر آئی ہے۔ ان میں سے بیشتر کو ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہے، مگر پھر بھی بعض لوگ تعمیرات اور زراعت کے شعبوں یا ریستورانوں میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

کرونا وائرس کی وباء پھیلی تو ترکی میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس طرز کی ملازمتیں راتوں رات ختم ہو گئیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ترکی میں انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس کے آپریشنز مینیجر جو ناتھن براس نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں لوگوں کا ذریعہ آمدنی جاتا رہا اور وہ پانی، بجلی اور صحت جیسی بنیادی ضروریات کا خرچ برداشت کرنے کے بھی قابل نہ رہے بلکہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے لئے انہیں قرض لینا پڑ رہا ہے جس نے ان کی مشکل اور بڑھا دی ہے۔

افغان پناہ گزین طویل مسافت طے کر کے ترکی کے شہر دیا کیبر میں پیدل داخل ہو رہے ہیں۔ فائل فوٹو
افغان پناہ گزین طویل مسافت طے کر کے ترکی کے شہر دیا کیبر میں پیدل داخل ہو رہے ہیں۔ فائل فوٹو

رپورٹ کے خالق کہتے ہیں کہ ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں میں قرض لینے کی شرح گزشتہ برس 50 فیصد تک بڑھ چکی ہے اور وہ زندگی کی ڈور قائم رکھنے کے لئے ہاتھ پیر مارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے اپنی خوراک کی نوعیت اور مقدار تک کم کر دی ہے مگر اس کے باوجود ان اخراجات اور مکان کے کرایوں کے لئے ان کا قرض ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اینڈ ریڈ کریسنٹ سوسائیٹیز کی جانب سے ترکی میں ان پناہ گزینوں کو نقد رقم کی صورت میں امداد فراہم کی جاتی ہے جو یورپی یونین مہیا کرتی ہے۔ اس بارے میں برسلز اور انقرہ کے درمیان 2016 میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس کا مقصد پناہ گزینوں کی آمد میں روک لگانا تھا

ایمرجنسی سوشل سیفٹی نیٹ نامی اس پروگرام کے تحت پناہ گزین خاندان کے ہر فرد کو 18 ڈالر ماہانہ ادا کئے جاتے ہیں۔

25 جون کو ایک پریس کانفرنس میں یورپی یونین کمشن کی صدر ارسلا وان ڈر لین نے مزید فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ انہوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ’’ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ہم ترکی اور اس خطے میں لاکھوں شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے اردن اور لبنان جیسے دیگر ممالک کی امداد جاری رکھیں گے"۔

انہوں نے کہا کہ شامی تنازع کے دس سال پورے ہو گئے اور یہ خطہ اس کا سب سے زیادہ بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ اور یہ ہمارے اجتماعی یورپی مفاد میں ہے کہ ہم پناہ گزینوں اور ان کے میزبان ملکوں کو تحفظ فراہم کریں خاص طور پر عالمی وبا کی اس مشکل اقتصادی صورتِ حال میں۔

ترکی: عطیات اور مالی امداد میں کمی سے پناہ گزین پریشان
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:31 0:00

یورپی یونین کمشن کی سربراہ نے ترکی میں موجود پناہ گزینوں کی امداد جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کا منصوبہ ہے کہ 2024 تک ترکی میں پناہ گزینوں کی امداد کے لئے 3 ارب یورو یا تین اعشاریہ 6 ارب ڈالر کی اضافی رقم مختص کی جائے اور یہ رقم مکمل طور پر یورپی یونین کے بجٹ سے مہیا کی جائے گی۔

اگرچہ پناہ گزینوں کی مشکلات ان گنت ہیں مگر ایک اچھی بات یہ ہے کہ ترکی میں ان پناہ گزینوں کو کرونا وائرس کی ویکسین تک رسائی حاصل ہے۔

آئی ایف آر سی کے براس کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں کمی اور کروناوائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں میں نرمی ان پناہ گزینوں کے لئے روزگار کے مواقع ایک مرتبہ پھر کھول دے گی۔

مگر ناقدین کہتے ہیں کہ مغرب کو اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش کرنا ہو گا۔ ہو سکتا ہے عالمی وبا کی وجہ سے پناہ گزینوں کی آمد خود بخود رک جائے۔

شام اور ترکی کی سرحد پر شام کے اندر پناہ گزینوں کا ایک بڑا کیمپ۔ پناہ گزین ترکی میں جانے کے خواہش مند ہیں۔
شام اور ترکی کی سرحد پر شام کے اندر پناہ گزینوں کا ایک بڑا کیمپ۔ پناہ گزین ترکی میں جانے کے خواہش مند ہیں۔

اس کا اندازہ پناہ گزینوں کے لئے یورپی یونین کی ایجنسی کے منگل کے روز جاری ہونے والے اس بیان سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ برس بین الا قوامی طور پر یورپ میں پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد 2013 سے کم ترین سطح پر رہی۔

ای اے ایس او کی ایک نئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں یورپی یونین کے 27 ممالک اور آئس لینڈ, لیکین سٹائن، ناروے اور سوئٹزر لینڈ میں پناہ کی 485,000 نئی درخواستیں موصول ہوئیں جو اس سے پہلے سال کے مقابلے میں 32 فیصد کم تعداد تھی۔

رپورٹ کے مطابق درخواستوں کی تعداد میں کمی بین الاقوامی تحفظ کے متلاشی افراد میں کمی کے باعث نہیں بلکہ کرونا وائرس کی وباء کے دوران سفر پر پابندیوں کی وجہ سے دیکھنے میں آئی ہے۔

تاہم رپورٹ کے مطابق پناہ کے متلاشی لوگوں کی بڑی تعداد کا تعلق اب بھی شام اور افغانستان سے ہے اور اس کے بعد وینزویلا اور کولمبیا کا نمبر آتا ہے جو سپین کے لئے درخواست دینا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد عراقی ہیں اور خود ترکی کے شہری جو سب سے زیادہ پناہ کے متلاشی سات ممالک کے باشندوں میں شامل ہیں اور یوروپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG