رسائی کے لنکس

ایران میں اسرائیل مخالف مظاہرے: اسرائیل کا ردعمل



ایران میں مقیم یہودی افراد اسرائیل مخالف ریلی میں ، فوٹو اے پی، 30 اکتوبر 2023
ایران میں مقیم یہودی افراد اسرائیل مخالف ریلی میں ، فوٹو اے پی، 30 اکتوبر 2023

ایران میں یہودی اقلیت کی طرف سے اسرائیل مخالف مظاہروں کے بارے میں اسرائیل کےپہلےعوامی ردعمل میں کہا گیا ہے کہ ایران میں یہودی اقلیت پربظاہر دباؤ کی وجہ سے یہ مظاہرے ہوئے تھے۔ اور یہ کہ ان ریلیوں میں شرکت کرنے والے ایرانی یہودیوں کے پاس ’’کوئی چارہ نہیں تھا۔‘‘

اسرائیلی وزارت خارجہ میں پبلک ڈپلومیسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایمینوئل ناہشون نے 14 نومبر کو یروشلم میں وائس آف امریکہ کی فارسی سروس کے ساتھ ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا کہ’’ ہم ان کے حالات کو بخوبی سمجھتے ہیں۔‘‘

ناہشون نے کہا ،’’ ہم سمجھتے ہیں کہ جب آپ ایک آمرانہ نظام میں رہتے ہیں تو بعض اوقات آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ان حالات کا حصہ ہے جس کے تحت ایران میں مقیم یہودی 1979 سے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس لیے ہم ان مشکلات کو سمجھتے ہیں جن کا انھیں سامنا ہے۔‘‘

اسرائیل حماس جنگ بندی میں ایران کا کیا کردار ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:38 0:00

اسرائیل کے وجود کی مخالفت کرنے والے بنیاد پرست شیعہ علما نے 1979 کے اسلامی انقلاب میں بر سر اقتدارآنے کے بعد سے وہ ایران پر حکومت کر رہے ہیں۔ایرانی یہودیوں نے 30 اکتوبر کو پانچ شہروں میں ریلیاں نکالیں اور حماس کے خلاف جنگ چھیڑنے پر اسرائیل کی مذمت کی ۔حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس کے بعد لڑائی کا آغاز ہو گیا۔

ایران کی پانچ سرکاری خبر رساں ایجنسیوں کی طرف سے جاری ویڈیوز اور تصاویر کے مطابق، جن کا وی او اے نے جائزہ لیا ، سینکڑوں یہودیوں نے ان ریلیوں میں شرکت کی جن کا انعقاد دارالحکومت تہران شیراز، اصفہان، یزد اور کرمانشاہ کے شہروں میں کیا گیا۔ 1979 کے بعد ایران میں یہ سب سے بڑے اسرائیل مخالف یہودی اجتماع تھے۔

ناہشون نے کہا کہ اسرائیل ایرانی یہودیوں کے بارے میں برا نہیں سوچتا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے بہن بھائی ہیں اور ہم ان سے بہت محبت کرتے ہیں۔

امریکہ نے ایران کے اقلیتی یہودیوں پر ظاہری جبر کو ’قابل نفرت‘ قرار دیا جنھیں اسرائیل مخالف ریلیوں کے انعقاد کے لیے مجبور کیا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ ’’یہ بات قابل مذمت ہے کہ ایرانی حکومت مذہبی گروہوں پرمسلسل دباؤ ڈال رہی ہے جس کا مقصد اپنے پروپیگنڈے کو آگے بڑھانا ہے ۔‘‘ اسرائیل حماس جنگ کے حوالے سے ترجمان نے مزید کہا کہ ایران کی جانب سے اس تنازعے کو اپنے جبر اور یہودی برادری کے خلاف استعمال کرنا قابل نفرت ہے۔

نیویارک میں اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے وائس آف امریکہ کو ایک بیان میں اس امریکی تنقید کا جواب دیا جس میں 18 اکتوبر کو واشنگٹن میں انتہائی بائیں بازو کے امریکی یہودیوں کے اسرائیل مخالف مظاہرے کا ذکر کیا گیا اوریہ پوچھا گیا کہ کیا وہ بھی اسرائیل کی مذمت کرنے کے لیے ’’دباؤ کا شکار‘‘ تھے۔

ایرانی بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ’’دنیا بھر میں دوسرے یہودیوں کی طرح ایرانی یہودی بھی بے گناہ فلسطینی خواتین اور بچوں کے خلاف قابض حکومت( اسرائیل) کے سنگین جرائم سے تنگ آچکے ہیں۔‘‘

یہودیوں کے انسانی حقوق کی عالمی تنظیم سائمن ویسنتھل سینٹر نے کہا ہے کہ دراصل عالمی سطح پریہودیوں کو اسرائیل کے خلاف غصے کا اظہار کرنے کے بجائے یہود دشمنی میں انتہائی اضافے ‘‘ کا سامنا ہے جس کا تعلق اسرائیل حماس جنگ سے ہے۔

امریکی ربی ابراہم کوپر بین الاقوامی مذہبی آزادی کے پارٹی بنیادوں سے بالا تر امریکی کمیشن کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے جمعرات کو وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک ٹیلی فون انٹرویو میں یہودی اقلیت کے بارے میں ایران کے بیان پر اپنا پہلا عوامی ردعمل دیا۔ کوپر سائمن ویسینتھل سینٹر کے گلوبل سوشل ایکشن کے ڈائریکٹر کے طور پر بھی فرائض انجام دیتے ہیں۔

کوپر نے کہا کہ ’’ایران کے یہودی اس کی دیگر اقلیتوں کی طرح بنیادی طور پر حکومت کے یرغمال ہیں جو اس وقت تک اپنی عبادت کر سکتے ہیں جب تک درست بیان دیتے رہیں اور حکومت کے اصولوں پر عمل کرتے رہیں ۔یہودی کمیونٹی کے ارکان جانتے ہیں کہ جب حکومت آپ کو بتاتی ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہےتو آپ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاسکتے ۔ یہ مذہبی آزادی نہیں ہے۔‘‘

امریکی محکمہ خارجہ کی بین الاقوامی مذہبی آزادی پر مئی میں شائع ہونے والی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں تہران کی یہودی کمیٹی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایران میں تقریباً 9000 یہودی رہائش پذیر ہیں ۔

رپورٹ میں کمیونٹی کے ایک نامعلوم رکن کا بھی حوالہ دیا جس نے 2021 میں امریکہ کے دورے کے دوران ایران میں یہودی آبادی کی تعداد کا تخمینہ 20,000 لگایا تھا۔

وائس آف امریکہ

فورم

XS
SM
MD
LG