رسائی کے لنکس

پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ کا تنازع؛ ’افغان عوام ڈیورنڈ لائن کے معاملے میں بہت حساس ہیں‘


پاکستان کی فوج کی نصب کردہ خاردار باڑ کو مبینہ طور افغان طالبان کے مسلح اہلکاروں کے اکھاڑنے کا واقعہ گزشتہ ہفتے بھی پیش آیا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ خار دار تار افغانستان کی حدود میں لگائی گئی تھی۔ (فائل فوٹو)
پاکستان کی فوج کی نصب کردہ خاردار باڑ کو مبینہ طور افغان طالبان کے مسلح اہلکاروں کے اکھاڑنے کا واقعہ گزشتہ ہفتے بھی پیش آیا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ خار دار تار افغانستان کی حدود میں لگائی گئی تھی۔ (فائل فوٹو)

افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر خاردار باڑ لگانے کا تنازع ایک بار پھر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

پاکستان کی فوج کی نصب کردہ خاردار باڑ کو مبینہ طور افغان طالبان کے مسلح اہلکاروں کے اکھاڑنے کا واقعہ گزشتہ ہفتے بھی پیش آیا ہے اور اس کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ خار دار تار افغانستان کی حدود میں لگائی گئی تھی۔

اس حوالے سے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے افغانستان میں ’پژواک نیوز ایجنسی‘ کے سابق مدیر اور کے صوبہ ننگرہار سے تعلق رکھنے والے جاوید حمیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ افغان عوام ڈیورنڈ لائن کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ اس لیے وہ ہر اس اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں جس کے تحت اس سرحد کو مستقل بارڈر بنایا جا رہا ہو جسے وہ سرحد کے دونوں جانب آباد قبائل کی تقسیم قرار دیتے ہیں۔

جاوید حمیم کاکڑ کے مطابق 1893 میں انگریز دور میں ڈیورنڈ لائن کو مستقل سرحد بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگرچہ پاکستان نے اسے افغانستان کے ساتھ مستقل سرحد کے طور پر قبول کر لیا ہے تاہم افغانستان نے کبھی بھی اسے عالمی سرحد تسلیم نہیں کیا۔ ان کے مطابق یہی وجہ ہے کہ سات دہائیاں گزرنے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تنازعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں اطراف آباد قبائل کی جغرافیائی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ ان کی رشتہ داریا تو ہیں ہیں اس کے علاوہ بڑے پیمانے پر ان کا کاروبار بھی اسی سرحد کے ذریعے ہوتا ہے۔

دوسری جانب پاکستان کا کہنا ہے کہ افغان سرحد سے متصل 2600 کلومیٹر پر محیط سرحد پر 90 فی صد تک باڑ لگانے کا عمل مکمل ہو چکا ہے جس کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔

امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ سے وابستہ صحافی حق نواز خان کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ دیکھنے میں آیا ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ سرحد پر رونما ہونے والے واقعات کا تعلق کابل میں قائم حکومت سے نہیں ہوتا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حق نواز خان نے بتایا کہ پاکستان کو یہ توقع تھی کہ افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سرحدی تنازعات میں کمی ہو گی البتہ طالبان کے کابل کا کنٹرول حاصل کرنے کے اگلے ہی روز وزیرستان سے ملحقہ برمل کے علاقے میں دونوں اطراف سے جھڑپوں کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اسی طرح مہمند، باجوڑ اور حتیٰ کہ چمن کی سرحد پر بھی دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے ان واقعات کی شدت میں اس وقت اضافہ ہوا تھا جب سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر ویڈیوز وائرل ہوئیں جس میں طالبان کو خاردار تار اکھاڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

پاکستان افغانستان سرحد پر خاردار باڑ کی مخالفت کیوں کی جاتی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:10:23 0:00

اس حوالے سے پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت اور طالبان کی جانب سے کوئی باضابطہ رد عمل سامنے نہیں آیا۔

ان واقعات کے بعد پاکستان کا کہنا تھا کہ سرحد پر پیش ہونے والے واقعات کو طالبان کی اعلیٰ قیادت کے سامنے اٹھایا گیا۔ معاملات آپس میں حل کر لیے گئے ہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان سرحد پر دہشت گردی کی کارروائیاں میں ایک بار پھر اضافہ ہوا ہے۔ طالبان نے بار بار یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین کسی دہشت گردی کی کارروائی کے لیے استعمال نہیں ہوگی البتہ گزشتہ چند ماہ کے دوران تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے جب کہ اس تنظیم کی پناہ گاہیں افغانستان میں ہیں۔

رپورٹس کے مطابق افغان طالبان کی مداخلت پر پاکستان اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان معاملات کو افہام تفہیم کے ساتھ حل کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز بھی ہوا تھا البتہ رواں ماہ کی نو تاریخ کو ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت آ گئی ہے۔

پاکستان کے افغانستان میں سفیر منصور احمد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کی روک تھام کے حوالے سے افغانستان کی اعلیٰ قیادت سے بات چیت جاری ہے۔

پاکستانی سفیر کا مزید کہنا تھا کہ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ اگرچہ جنگ بندی میں توسیع نہیں ہوئی البتہ وہ پر امید ہیں کہ مذاکرات کو آگے بڑھایا جائے گا۔

افغان صحافی حق نواز خان کے مطابق بارڈر پر نصب خاردار تار بہت پیچیدہ اور سنگلاخ پہاڑی سلسلوں پر سے گزری ہے جس سے یہ تعین کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ کونسا علاقہ پاکستان کا ہے اور کون سا افغانستان میں ہے جب کہ دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے علاقوں پر دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جب تک اس مسئلے کا مستقل حل نہیں نکالا جاتا تب تک معاملات جوں کے توں ہی رہیں گے اور جیسا کہ مختصر وقت میں چار پانچ واقعات رونما ہوئے ہیں ایسے ہی واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان قیادت پر بھی عوام کا دباؤ ہے کیوں کہ وہ دوسری طرف اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ملنے جلنے اور کاروبار میں آسانی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے جب دونوں جانب سے لین دین میں آسانی اور ویزے کے اجرا میں نرمی پیدا کی جائے۔

حق نواز خان کے مطابق افغان عوام کو پاکستانی ویزے کے حصول میں درپیش مشکلات اور کاروباری پریشانیاں سرحد پر لگی خاردار تار کے خلاف غصے میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ افغان عوام کی سہولت کے لیے اب ویزے کی فراہمی آن لائن کر کے آسانی پیدا کر دی ئی ہے اور اب کسی بھی فرد کے لیے سفارت خانے یا قونصل خانے آنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

حق نواز خان کہتے ہیں کہ افغانستان میں ناخواندگی اور انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کے باعث ویزے کے حصول کے معاملات مزید الجھ گئے ہیں۔ شہریوں کو دو دو ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔

'پاک افغان سرحد سے باڑ ہٹانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:10:03 0:00

کابل میں مقیم سیاسی مبصر نصرت اللہ حقپال، حق نواز خان سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ افغان عوام کو پاکستان کے عوام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے البتہ وہ پاکستان کی حکومت کی بعض پالیسیوں کو افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان عوام سمجھتے ہیں کہ اگر دونوں ممالک کی جانب سے بارڈر پر حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات کو روکنے کے اقدامات نہ کیے گئے تو ان میں مزید شدت آ سکتی ہے کیوں کہ سرحد پر باڑ لگائے جانے جیسے اقدامات کے بعد افغان عوام میں پاکستان مخالف جذبات موجود ہیں۔

XS
SM
MD
LG