رسائی کے لنکس

'ماہرین کو اے ٹی آر طیاروں کے انجن پر تحفظات تھے'


فائل
فائل

بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسم گرد آلود ہوتا ہے اور ان جہازوں کے انجن گرد جذب کرتے ہیں جس کے باعث ان کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔

سول ایوی ایشن کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی نے دعویٰ کیا ہے کہ ایوی ایشن ماہرین کو اے ٹی آر طیاروں کے انجنوں سے متعلق تحفظات تھے اور کئی ماہرین کا خیال تھا کہ پاکستان کا موسم ان انجنوں کے لیے موافق نہیں۔

وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے پروگرام 'جہاں رنگ' میں میزبان نفیسہ ہود بھائے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے نیوز چینل 'جیو' سے وابستہ صحافی طارق ابوالحسن نے بتایا کہ حادثے کا شکار ہونے والاطیارہ 'اے ٹی آر-42' ساختہ تھا جنہیں پی آئے اے گزشتہ 11 سال سے استعمال کر رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اے ٹی آر طیاروں کے انجن سے متعلق ابتدا سے ہی شکایات رہی ہیں۔ ان کے بقول بعض ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موسم گرد آلود ہوتا ہے اور ان جہازوں کے انجن گرد جذب کرتے ہیں جس کے باعث ان کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔

طارق ابوالحسن نے بتایا کہ فوکر طیاروں کی گراؤنڈنگ کے بعد جب پی آئی اے متبادل طیارے تلاش کر رہی تھی تو پہلے مرحلے میں 'اے ٹی آر' طیاروں کو مسترد کردیا گیا تھا لیکن بعد میں انہیں خرید لیا گیا۔

پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے فلائٹ سیفٹی کے ماہر ونگ کمانڈر (ریٹائرڈ) نسیم احمد نے بتایا کہ پاکستان ایئرلائنز نے فوکر طیاروں کو گراؤنڈ کرنے کے بعد اے ٹی آر طیاروں کو اپنے فلیٹ میں شامل کیا تھا جو دنیا بھر میں استعمال ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ اے ٹی آر طیاروں میں سیفٹی کا کوئی مسئلہ ہے کیوں کہ پائلٹ نے واضح طور پر ایئر ٹریفک کنٹرولرز کو بتایا تھا کہ طیارے کا انجن فیل ہوا ہے۔

نسیم احمد نے کہا کہ چترال –اسلام آباد روٹ پر گزشتہ 30 برسوں کے دوران پہلے بھی حادثات ہوچکے ہیں۔ ان کے مطابق اب تک آنے والی اطلاعات یہ ہیں کہ حادثے کے وقت موسم ٹھیک تھا اور حادثے کی بنیادی وجہ بظاہر انجن کی خرابی ہی بنی ہے۔

پروگرام میں ہری پور سے کال کرنے والے ایک عینی شاہد صوبیدار ہمایوں نے بتایا کہ انہوں نے زمین سے دیکھا تھا کہ جہاز کو دورانِ پرواز جھٹکے لگ رہے تھے جس کے بعد وہ ان کے پڑوسی گاؤں کے نزدیک گر کر تباہ ہوگیا۔

XS
SM
MD
LG