رسائی کے لنکس

’بغیر تفتیش سیاسی جماعتوں کے تحفظات رد کرنا انتخابی عمل پر اعتماد کے لیے نقصان دہ‘


مشاہداتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’انتخابی نتائج میں تاخیر اور گنتی میں سست روی کے علاوہ الیکشن پرامن رہا، فوج کی تعیناتی مطالبے کے پیش نظر ہوئی‘‘۔ رپورٹ میں الیکشن میں رکاوٹ ڈالنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے چیئرمین سرور باری نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بغیر کسی تفتیش کے سیاسی جماعتوں کے تحفظات کو رد کرنا انتخابی عمل پر اعتماد کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے گا، جو ملک کو نئے سیاسی بحران کیطرف دھکیل سکتا ہے۔

فافن نے الیکشن 2018 سے متعلق رپورٹ جاری کردی ہے اور پاکستان میں ہونے والے حالیہ انتخابات کا شفاف قرار دے دیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’انتخابی نتائج میں تاخیر اور گنتی میں سست روی کے علاوہ الیکشن پرامن رہا، فوج کی تعیناتی مطالبے کے پیش نظر ہوئی‘‘۔ رپورٹ میں الیکشن میں رکاوٹ ڈالنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کی ابتدائی مشاہداتی رپورٹ کا اجرا اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں تنظیم کے چیئرمین سرور باری نے کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتخابی نتائج کے اجرا میں تاخیر اور گنتی کے عمل میں غیرشفافیت کی شکایات کے علاوہ انتخابات کا دن پرامن اور کسی بڑے تنازعے سے پاک رہا۔

رپورٹ کے مطابق، جولائی کو منعقدہ ان انتخابات میں نصف سے زائد رجسٹرڈ ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، جبکہ دہشتگردی کے چند بڑے واقعات اور سیاسی تقسیم پر اثر انتخابی مہم پر نمایاں نظر آیا۔

تنظیم کے چیئرمین سرور باری نے کہا ہے کہ انکی تنظیم سمجھتی ہے کہ نئے انتخابی قوانین کے تحت متعارف کرائے جانے والے ریزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم کو درپیش مسائل کے باوجود انتخابی عمل کے اہم پہلوؤں میں نمایاں بہتری دیکھنے میں آئی جس سے انتخابات پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ووٹرر رجسٹریشن بالخصوص خواتین رائے دہندگان کے انتخابی فہرستوں میں اندراج، انتخابی حلقہ بندیوں میں قانونی تقاضوں کی تکمیل اور انتخابی مہم کے قواعد پر سختی سے عملدرآمد کے حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کیے تاکہ انتخابات کا معیار بہتر بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ نئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹوں کی گنتی، انتخابی نتائج سے متعلق تحفظات کو دور کرے اور انتخابات کے معیار پر لگنے والے اس داغ کہ ذمہ دار تمام اداروں اور اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرے۔

فافن چیئرمین نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بغیر کسی تفتیش کے سیاسی جماعتوں کے تحفظات کر رد کرنا انتخابی عمل پر اعتماد کرنے کی راہ میں رکاوٹ بنے گا جو ملک کو نئے سیاسی بحران کیطرف دھکیل سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق، عام انتخابات 2018 کے دوران انتخابی فرائض سرانجام دینے والے سرکاری اہلکاروں کی تعداد ماضی کے انتخابات کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار الیکشن کمیشن نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام حلقوں کے لیے علیحدہ علیحدہ 849 ریٹرننگ افسران تعینات کیے گئے۔ اس قدر بڑی تعداد کے سبب پولنگ سکیم کی تیاری میں ابتدائی طور پر چند مسائل بھی سامنے آئے تاہم الیکشن کمیشن ان مسائل کو بروقت حل کرنے میں کامیاب رہا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 242،088 بوتھوں پر مبنی 85،317 پولنگ اسٹیشنوں میں انتخابی فرائض سرانجام دینے کے لیے 811،491 اہلکار تعینات کیے گئے جنہوں نے پریزائیڈنگ افسران، اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسران اور پولنگ افسران کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

اسی طرح 371،000 فوجی اہلکاروں نے انتخاب کے دن کو پرامن بنانے کے لیے سکیورٹی کے فرائض سنبھالے۔ البتہ چند سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوج کی انتخابات میں تعیناتی کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

رپورٹ کے مطابق انتخابات سے پہلے پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان اور مستونگ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں 150 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے تھے اور انتخابات کے دن بھی تخریب کاری کے خدشات موجود تھے۔ بلوچستان کے ضلع کیچ میں ایرانی سرحد کے ساتھ سکیورٹی اہلکاروں پر حملے اور بنوں میں انتخابی امیدوار پر حملوں سے بھی انتخابی ماحول متاثر ہوا۔ البتہ فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی تعیناتی سے انتخابات کے دن ووٹروں کی بڑی تعداد اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے باہر نکلی جس کی بدولت کوئٹہ میں دہشت گردی اور صوابی میں سیاسی جماعتوں کے جھگڑے کے اکا دکا افسوسناک واقعات کے علاوہ مجموعی طور پر انتخاب کا دن پُرامن رہا اور سکیورٹی اہلکاروں نے معمولی نوعیت کے جسمانی و زبانی لڑائی جھگڑوں پر بروقت قابو پالیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتخاب کے دن ووٹنگ کا عمل بلا تعطل جاری رہا۔ فافن کو اپنے مشاہدہ کاروں کی جانب سے تاحال 37،001 پولنگ اسٹیشنوں کی مشاہداتی رپورٹس موصول ہوئی ہیں جن میں سے ایک تہائی پولنگ اسٹیشنوں پر انتخابی قواعد و ضوابط کی کم از کم ایک خلاف ورزی بھی پولنگ اسٹیشن دیکھنے میں آئی۔ تاہم، ان میں سے کئی خلاف ورزیاں معمولی نوعیت کی تھیں جن کے انتخابی نتائج پر اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں مگر الیکشن کمیشن کو انتخابی قانون اور قواعد کے نفاذ کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی کاوشوں کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

فافن کے مطابق، الیکشن کمیشن کی جانب سے 241 قومی اسمبلی کے حلقوں کے عبوری نتائج (فارم 47) کے جائزے کے مطابق انتخابات میں ووٹروں کا ٹرن آؤٹ 53.3 رہا۔ پنجاب میں ووٹر ٹرن آؤٹ دیگر صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ رہا اور 59 فیصد ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جو کہ 127 حلقوں کے عبوری نتائج پر مبنی ہے۔ اسلام آباد کے تین حلقوں میں ٹرن آؤٹ 58.2 فیصد، سندھ کے 52 حلقوں میں 47.7 فیصد، خیبرپختونخوا بشمول فاٹا کے 50 حلقوں میں 43.6 فیصد اور بلوچستان میں 39.6 فیصد رہا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر ان حلقوں میں مرد ووٹروں کا ٹرن آؤٹ 58.3 فیصد جبکہ خواتین کا ٹرن آؤٹ اس سے کہیں کم 47 فیصد رہا۔ عام انتخابات 2013 میں 46.9 ملین ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا جبکہ 2018 میں یہ تعداد 49.48 ملین رہی۔ واضح رہے کہ حتمی نتائج کی تیاری کے دوران پوسٹل بیلٹ پیپر اور انتخابات کے دن مسترد شدہ بیلٹ پیپروں کی تصدیق کے بعد اس ٹرن آؤٹ میں معمولی تبدیلی ہوسکتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حیرت انگیز طور پر قومی اسمبلی کے 35 حلقوں میں جیتنے والے اور دوسرے نمبر پر رہنے والے امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کا فرق ان حلقوں میں مسترد کردہ ووٹوں کے فرق سے کم ہے۔ ان 35 حلقوں میں سے 24 پنجاب، چھ خیبرپختونخوا، چار سندھ اور ایک بلوچستان کا حلقہ شامل ہیں۔ الیکشن کمیشن اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام ریٹرننگ افسران حتمی نتائج کی تیاری کے دوران اپنے حلقے کے پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی سے خارج کیے جانے والے بیلٹ پیپروں کی محتاط طریقے سے جانچ کریں، تاکہ کوئی بیلٹ پیپر غلط طور پر مسترد قرار نہ دیا جائے۔

چیئرمین فافن نے بتایا ہےکہ عبوری نتائج کے مطابق، این اے 10 شانگلہ اور این اے 48 شمالی وزیرستان ایجنسی کے حلقوں میں خواتین ووٹروں کا ٹرن آؤٹ دس فیصد سے کم رہا ہے۔ الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کسی انتخاب میں خواتین کا ٹرن آؤٹ مجموع ووٹوں کے دس فیصد سے کم رہنے کی صورت میں الیکشن کمیشن متعلقہ پولنگ اسٹیشنوں یا حلقے کے نتائج کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ انتخاب کا حکم دے سکتا ہے۔

چیئرمین کا کہنا تھا کہ فافن کی یہ ابتدائی رپورٹ ملک بھر سے موصول شدہ مشاہداتی رپورٹوں پر مبنی ہے۔ تاہم، ابھی مزید رپورٹوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ تمام مشاہدہ کاروں کی جانب سے رپورٹیں موصول ہونے کے بعد فافن انتخابات کے جائزے کی تفصیلی رپورٹ جاری کرے گا۔

XS
SM
MD
LG