رسائی کے لنکس

جمہوریت کے خلاف سازش، امریکی تھنک ٹینک اور پاکستانی میڈیا ادارے نے الزامات مسترد کر دیے


 ’نیشنل انڈونمنٹ فار ڈیموکریسی‘ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک جعلی خط شئیر کیا جا رہا ہے، جو کہا جا رہا ہے کہ این ای ڈی کے وائس پریذیڈنٹ اور امریکہ کے سفارت خانہ کی طرف سے تحریر کیا گیا ہے۔ یہ مکمل طور پر غلط معلومات ہیں۔ فائل فوٹو
’نیشنل انڈونمنٹ فار ڈیموکریسی‘ کے مطابق پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک جعلی خط شئیر کیا جا رہا ہے، جو کہا جا رہا ہے کہ این ای ڈی کے وائس پریذیڈنٹ اور امریکہ کے سفارت خانہ کی طرف سے تحریر کیا گیا ہے۔ یہ مکمل طور پر غلط معلومات ہیں۔ فائل فوٹو

پاکستان میں ’فیک نیوز‘ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر بحث ہے. اس دوران ایک وی لاگر کی طرف سے امریکہ کے ایک تھنک ٹینک پر پاکستان میں جمہوریت کے خاتمہ کے لیے سازش کرنے کے الزامات سامنے آئے ہیں جنہیں تھنک ٹینک سمیت پاکستان کے مختلف میڈیا اداروں نے مسترد کر دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر وقار ملک نامی وی لاگر نے ایک ویڈیو شئیر کی ہے جس میں انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم (این جی او) ’نیشنل اینڈاونمنٹ فار ڈویموکریسی‘ (این ای ڈی) مختلف اداروں اور شخصیات کے ساتھ مل کر پاکستان کی فوج اور حکومت کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ اس ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سب مل کر انقلاب لانا چاہتے ہیں۔

انہوں نے اپنی ویڈیو میں ایک خط بھی شامل کیا ہے جس کے حوالے سے ان کا دعویٰ ہے کہ این ای ڈی پاکستان میں امریکہ کے سفارت خانے کے ساتھ مل کر حکومت کے اداروں کے خلاف سازش میں مصروف ہے۔

اس خط میں شامل ’نیا دور‘ ویب سائٹ کے چیف ایگزیکٹو افسر (سی ای او) رضا رومی نے ای میل میں کہا کہ اس قسم کے وی لاگز اور سوشل میڈیا پوسٹس پاکستان میں آزاد میڈیا پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہیں۔

دوسری جانب ’نیشنل اینڈاونمنٹ فار ڈیموکریسی‘ نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک جعلی خط شئیر کیا جا رہا ہے، جو کہا جا رہا ہے کہ این ای ڈی کے وائس پریذیڈنٹ اور امریکہ کے سفارت خانہ کی طرف سے تحریر کیا گیا ہے۔

این ای ڈی کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر غلط معلومات ہیں اس میں غلط لوگو، جعلی دستخط اور تحریری کی غلطیاں موجود ہیں۔ اس طرح کی کوئی بھی دستاویز کبھی کسی ادارے کو نہیں بھیجی گئی۔

دوسری جانب رضا رومی کا کہنا ہے کہ یہ جعلی خط سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جانا صرف غلط معلومات پھیلانا ہی نہیں ہے بلکہ اس میں جن لوگوں کے نام شامل کیے گئے ہیں ان کی زندگیوں کو خطرات میں ڈالا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق ان پر 2014 میں لاہور میں حملہ ہو چکا ہے جس میں ان کا ڈرائیور ہلاک اور ایک شخص زخمی ہوا تھا۔ اس حملہ کے بعد ان کو پاکستان چھوڑنا پڑا۔

صحافت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے رضا رومی نے کہا کہ ہمارا کام حکومتی جماعت کی طرف سے حالیہ عرصہ میں شدید خطرات سے دوچار ہوا ہے۔ پروپیگنڈہ مہم شروع کی گئی۔ آن لائن حملے ہمارے لیے معمول کا مسئلہ بن گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ وی لاگر کی طرف سے سی آئی اے کے ساتھ ان کے ادارے کو منسلک کرنا نہ صرف ان کے لیے خطرات بڑھا رہا ہے بلکہ ان کے ادارے کو بند کرنے کے لیے بھی راہ ہموار کی جا رہی ہے جس سے 120 صحافی اس وقت منسلک ہیں۔

رضا رومی نے کہا کہ موجودہ صورتِ حال میں وہ اپنے ساتھیوں کے تحفظ کے لیے پریشان ہیں۔ کیوں کہ اس طرح کی غلط معلومات کے باعث ورکرز کو قانونی کارروائی، گرفتاری اور غائب کیے جانے کا بھی خطرہ موجود ہے۔

اس بارے میں مؤقف حاصل کرنے کے لیے وی لاگر وقار ملک کو ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر دیے گئے ای میل ایڈریس پر سوالات بھی بھیجے گئے البتہ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس معاملے پر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ اگر تحقیقات کی جائیں تو فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کے پیچھے حکومت نکلے گی جس کا مقصد صحافت کو بدنام کرنا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حامد میر نے کہا کہ بعض یوٹیوبرز کو سرکاری خزانے سے پیسے ملتے ہیں جو کہ حکومت اور ریاستی اداروں کی ہدایات پر غلط خبریں پھیلاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صحافی فیک نیوز کے متاثرین ہیں۔ اسی وجہ سے صحافیوں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرکے فیک نیوز کے خلاف پیمرا کا ضابطہ اخلاق بنوایا۔

حامد میر نے الزام عائد کیا کہ حکومتی وزرا خود فیک نیوز پھیلاتے ہیں جس کی مثال حال ہی میں وزیر اطلاعات کا یہ بیان تھا کہ تحریک لبیک کو بھارت سے مالی امداد ملتی ہے۔ البتہ اس پر حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی کرنے کے بجائے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) سے پابندی اٹھا لی جاتی ہے۔

کیا 'فیس بک' ایک محفوظ پلیٹ فارم نہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:54 0:00

حامد میر نے مشورہ دیا کہ امریکہ کے تھنک ٹینک کے حوالے سے لگائے گئے الزامات پر قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔

ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی صدف خان کہتی ہیں کہ عالمی سطح پر ڈس انفارمیشن پر قانون سازی کرنے کو بہتر تصور نہیں کیا جاتا ہے کیوں کہ ڈس انفارمیشن کا تعین کون کرے گا یہ بہت مشکل عمل ہے۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ ہتک عزت کا قانون موجود ہے اور اگر غلط خبر پھیلائی جائے تو اس قانون کے تحت شکایت کی جاسکتی ہے۔

صدف خان نے کہا کہ فیک نیوز ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے آسانی سے حل کیا جاسکے اور قانون بنانا کافی نہیں ہوگا کیوں کہ پاکستان میں ڈیجیٹل آگاہی بہت کم ہے اور اس پر عمل درآمد ایک مشکل عمل ہوگا۔

وزیرِ اعظم پاکستان کے ڈیجیٹل رائٹس کے لیے فوکل پرسن ڈاکٹر ارسلان خالد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ درست اور حقیقت پر مبنی انفارمیشن ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ اگر اس تک غلط خبر پہنچ رہی ہے اور اس کو گمراہ کیا جا رہا ہے تو اس کے کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح ہے کہ عوام تک درست معلومات پہنچیں اور اس ضمن میں حکومت کے ساتھ میڈیا کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور شفافیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے عوام کو حقائق پر مبنی معلومات دی جائیں۔

ڈاکٹر ارسلان نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ جب بھی کوئی فیک نیوز پھیلے اس کا فیکٹس اور لاجک کے ساتھ جواب دیا جائے۔ فیک نیوز سے متعلق حقائق پر مبنی اور بھر پور تحقیق کے ساتھ مستند اکاؤنٹس سے اس کا جواب دیا جائے تاکہ عوام حقائق جان سکیں۔

وزیر اعظم کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا کہتے ہیں کہ اگر فیک نیوز کے ذریعے کسی کی عزت کو اچھالا گیا ہے اور بدنام کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے تو ایف آئی اے کے سائبر کرائم میں اس کی شکایت درج کرائی جا سکتی ہے۔ اگر شکایت کرنے والا کارروائی سے مطمئن نہیں ہے تو اس پر سٹیزن پورٹل پر بھی شکایت کا اندراج کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG