رسائی کے لنکس

قبائلی صحافی سے زیادہ کوئی غیر محفوظ نہیں


فائل
فائل

پاکستان میں میڈیا کو عمومی سنسرشپ کا سامنا ہے۔ لیکن، قبائلی علاقوں کے صحافی کئی سال سے خاص قسم کی سنسرشپ اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک طرف جنگجوؤں کے جتھے ہیں اور دوسری جانب سیکورٹی فورسز۔ دونوں خطرناک ہتھیاروں سے مسلح ہیں اور غیر جانب دار رپورٹنگ پسند نہیں کرتے۔ صحافی بالکل نہتے ہیں اور انھیں اکثر دھمکیوں، حملوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

وائس آف امریکا نے قبائلی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی سے گفتگو کی لیکن ان کے تحفظ کی خاطر نام نہیں لکھا جا رہا۔

سوال: قبائلی علاقوں کے صحافیوں کو کس قسم کی سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟

جواب: ملک کے دوسرے حصوں کے لوگ قبائلی علاقوں میں سنسرشپ کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ یہاں مقامی سطح پر کوئی اخبار نہیں نکلتا۔ پولیٹیکل انتظامیہ نے صحافیوں کے خبریں بھیجنے پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ اب فاٹا کہنے کو خیبرپختونخواہ میں شامل ہوگیا ہے اور ایجنسیوں کو ضلع بنا کر ڈپٹی کمشنر تعینات کیے گئے ہیں۔ لیکن صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ ویسی رپورٹنگ نہیں کی جا سکتی جیسے کرنی چاہیے۔ حکومت اور سیکورٹی اداروں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک فوکل پرسن مقرر کریں گے جو ہمیں خبریں فراہم کریں گے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اکثر ہمیں اپنے ذرائع سے خبر مل جاتی ہے۔ لیکن جب ہم تصدیق کے لیے سرکاری حکام سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ جواب نہیں دیتے۔

قبائلی علاقوں کے جتنے بھی صحافی ہیں، وہ وہاں نہیں رہنا چاہیے۔ وہ وہاں رہ بھی نہیں سکتے کیونکہ مواصلات کا نظام نہیں ہے۔ نہ موبائل فون چلتا ہے، نہ انٹرنیٹ ہے۔ لینڈلائن فون یا تو سرکاری دفاتر میں ہیں یا کسی کسی شخص نے بہت سفارش کے بعد پولیٹیکل انتظامیہ اور سیکورٹی اداروں سے کہہ سن کر لگوا لیا ہے۔ کسی صحافی کے پاس کوئی اہم خبر ہو تو اسے اپنے ادارے تک پہنچانے کے لیے قبائلی علاقے سے نکل کر بنوں یا پشاور آنا پڑتا ہے۔ فاٹا میں پریس کلبوں پر بھی پابندی تھی۔ بہت عرصے بعد گزشتہ ماہ میران شاہ کا پریس کلب کھولا گیا ہے۔ وزیرستان میں پچیس ستائیس صحافی تھے۔ لیکن بیشتر نے صحافت چھوڑ دی۔ چھ سات کام کام کر رہے ہیں۔ لیکن وہ بھی منتقل ہوچکے ہیں۔ اس کا ایک سبب کمیونی کیشن سسٹم نہ ہونا اور دوسری وجہ عدم تحفظ ہے۔

صحافی بڑے شہروں سے نکلنے والے اخبارات اور نیوز چینلوں کو خبر بھیجتے ہیں۔ خبر حساس ہو تو وہ اگلے ہی دن نشانہ بن جاتے ہیں۔ حیات اللہ اس کی ایک مثال ہیں۔ انھوں نے میر علی میں میزائل حملے کے بعد تصاویر بنائیں۔ اس کے بعد وہ لاپتا ہوگئے اور کچھ عرصے کے بعد ان کی لاش ملی۔

ملک ممتاز دوسرے صحافیوں سے کہتے تھے کہ احتیاط کریں، زیادہ خطرناک خبریں نہ دیں۔ لیکن وہ خود صبر نہیں کرپاتے تھے۔ جب بھی ہیلی کاپٹر سے یا جیٹ طیاروں سے بمباری ہوتی تھی اور بچے، خواتین اور عام شہری ہلاک ہوتے تھے تو وہ خبر دیتے تھے۔ اس بنیاد پر انھیں وارننگ دی گئی تھی۔ لیکن وہ نہیں رکے۔ ایک دن کالے شیشوں والی گاڑی میں سوار لوگوں نے انھیں قتل کردیا۔

پاکستان میں سب سے زیادہ صحافیوں پر قبائلی علاقوں میں حملے ہوئے ہیں۔ اب تک سولہ صحافی فاٹا میں قتل کیے جاچکے ہیں۔ متحرک صحافیوں کو اب بھی دھمکیاں ملتی ہیں اور سیکورٹی ادارے بھی گرفتار کر لیتے ہیں۔

سوال: آپ خبر دیتے ہیں تو خطرہ کہاں سے ہوتا ہے؟ دھمکیاں کون دیتا ہے؟

جواب: پہلے قبائلی علاقوں میں ہر قسم کے جنگجو تھے۔ ازبک، تاجک، عرب، چیچین، سب بڑی تعداد میں موجود ہوتے تھے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد وہ افغانستان منتقل ہوگئے یا اگر ہیں تو چھپے ہوئے ہیں۔ لیکن کچھ مہینوں سے قبائلی علاقوں میں دوبارہ ٹارگٹ کلنگ شروع ہوگئی ہے۔ ماضی میں ہر قبائلی کے پاس اسلحہ ہوتا تھا۔ حملہ کرنے کے لیے آنے والوں کو مزاحمت کا خطرہ رہتا تھا۔ فوجی آپریشنز میں سب لوگوں سے ہتھیار لے لیے گئے۔ اب عام لوگوں کے پاس اسلحہ نہیں ہے۔ ٹارگٹ کلر رات کے اندھیرے میں کسی بھی گھر میں گھستے ہیں اور اپنے ہدف کو قتل کردیتے ہیں۔ چھ ماہ میں صرف شمالی وزیرستان میں اٹھائیس افراد اس طرح قتل کیے جاچکے ہیں۔ ان میں بااثر افراد یا ملک بھی شامل ہیں۔فوجی آپریشنز کے دوران جن جنگجوؤں نے ہتھیار ڈالے تھے، فوج نے اب انھیں اپنا تسلیم کرکے اسلحہ دے دیا ہے۔ وہ لوگ طاقت حاصل کرگئے ہیں اور اپنے مخالفین کو مار دیتے ہیں۔ صحافی سمجھتے ہیں کہ اگر انھوں نے جنگجوؤں کے خلاف خبر چلائی تو انھیں بھی اسی طرح قتل کردیا جائے گا۔

اسی طرح صحافی سیکورٹی فورسز سے بھی خود کو محفوظ نہیں سمجھتے کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ اگر آپ نے ان کے خلاف کوئی خبر دی تو آپ خود خبر بن جائیں گے۔ اس لیے وہ سوچتے ہیں کہ آئی ایس پی آر نے جس طرح بھی خبر جاری کی ہے، جو بھی لکھ دیا ہے، اسی طرح آگے بھیج دو۔

بعض اوقات کوئی واقعہ ہوتا ہے، مثال کے طور پر دھماکا ہوتا ہے۔ آپ کے پاس مصدقہ خبر ہوتی ہے اور سیکورٹی فورسز کے مقامی لوگ ہی آپ کو آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے میڈیا ادارے اسے شائع نہیں کرتے۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ آئی ایس پی آر سے خبر جاری ہوگی تو چھاپیں گے۔ کئی گھنٹے بعد راولپنڈی سے خبر جاری ہوتی ہے تو اسے اخبارات اور چینل لے لیتے ہیں۔ اس طرح قبائلی علاقوں کے صحافی کا کردار ختم ہوجاتا ہے اور وہ کسی ایونٹ کی کوریج نہیں کرسکتا۔

سوال: قبائلی علاقوں کے بعض صحافیوں کو گرفتار کرکے تفتیش کی گئی تھی۔ ان صحافیوں نے کیا کیا تھا؟ انھیں گرفتار کرنے کی کیا وجہ تھی؟

جواب: اس سوال کا جواب مل جائے تو کیا بات ہے۔ شمالی وزیرستان کے چار پانچ صحافیوں کو اٹھایا گیا تھا۔ انھوں نے سیکورٹی اداروں سے کہا کہ آپ ایک فون کردیتے تو ہم خود آجاتے۔ اس طرح حراست میں لینا یا اغوا کرنا اچھی بات نہیں۔ لیکن کوئی بات نہیں سنتا۔ ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا گیا۔ آنکھوں پر پٹی چڑھا کر اور ہاتھ پیچھے باندھ کر کئی گھنٹے زمین پر بٹھا کر رکھا۔ پھر تفتیش میں بچوں جیسی باتیں پوچھیں کہ نام کیا ہے، والد کا نام کیا ہے، کہاں رہتے ہو، کیا کرتے ہو۔ ایسے سوالات کی کیا تُک بنتی ہے۔

صحافیوں پر جسمانی تشدد نہیں کیا۔ لیکن، ان کے سامنے دوسرے ملزموں پر تشدد کرکے ڈرایا گیا۔ پھر کسی کو بارہ گھنٹے بعد چھوڑ دیا، کسی کو چوبیس گھنٹے بعد۔ صحافیوں کے ساتھی اور ایڈیٹر بھاگ دوڑ کرتے ہیں اس لیے انھیں رہائی مل جاتی ہے۔ عام لوگوں کا پتا نہیں کیا حشر کیا جاتا ہوگا۔ ایک صحافی اسکالرشپ پر امریکا سے واپس آیا تو اسے دو ہفتے بند رکھا۔ ایسے لوگوں نے پریشان ہو کر صحافت چھوڑ دی۔

ایک بار شمالی اور جنوبی وزیرستان کے تمام صحافیوں کو بلیک لسٹ کر دیا گیا۔ یہ لوگ جب کسی چیک پوسٹ پر جاتے تو اور شناختی کارڈ دکھاتے تو کمپیوٹر پر ان کے نام کے آگے ہتھکڑی بنی ہوئی آجاتی۔ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ یہ لوگ جہاں بھی دکھائی دیں، انھیں گرفتار کرلیا جائے۔ صحافیوں نے گورنر سے شکایت کی اور انھوں نے کور کمانڈر سے بات کی۔ اس کے بعد وہ مسئلہ حل ہوا۔

نوٹ: وائس آف امریکا اردو نے پاکستان میں پریس فریڈم کی صورتحال کے بارے میں انٹرویوز کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس میں صحافیوں، میڈیا اداروں کے مالکان اور میڈیا کے بارے میں سرکاری پالیسی سے متعلق عہدیداروں سے گفتگو شامل کی جاتی رہے گی۔ اوپر دیا گیا انٹرویو اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

XS
SM
MD
LG