رسائی کے لنکس

قابل بھروسہ فواد عالم کو انٹرنیشنل کرکٹ سے دور رکھنے کا ذمے دار کون تھا؟


فواد عالم نے جمیکا ٹیسٹ میں 124 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی۔
فواد عالم نے جمیکا ٹیسٹ میں 124 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی۔

سال 2021 میں اگر کوئی ایک کھلاڑی پاکستان کرکٹ ٹیم میں 'مسٹر ڈی پینڈ ایبل' بن کر ابھرا ہے تو اس کا نام ہے فواد عالم۔

گزشتہ برس دسمبر میں نیوزی لینڈ کے خلاف ٹیسٹ سے لے کر اب تک وہ قومی ٹیم کے نہ صرف کامیاب ترین بلے باز رہے ہیں بلکہ دنیائے کرکٹ میں بھی لوگ ان کی تعریف کر رہے ہیں۔

پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان جاری دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بھی فواد عالم ہی نے پاکستان کی بیٹنگ کو سنبھالا اور گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران چوتھی اور مجموعی طور پر اپنے کریئر کی پانچویں ٹیسٹ سینچری اسکور کر دی۔

فواد عالم نے جمیکا ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں 124 رنز بنائے اور ناٹ آؤٹ رہے۔

نہ صرف سیریز میں موجود انٹرنیشنل کمنٹیٹرز ان کی محنت کی قدر کر رہے ہیں بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بھی ان کی شان دار اننگز کو سراہا۔

آئی سی سی نے تو سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے اکاؤنٹ میں فواد عالم کی تصویر پوسٹ کی۔ ساتھ ہی ساتھ ان کی پانچ مختلف ممالک میں پانچ سینچریوں کے کارنامے کو سراہا۔

دوسری جانب سابق کھلاڑیوں جن میں ویسٹ انڈیز کے ائن بشپ اور سیموئل بدری کے ساتھ ساتھ پاکستان کے تنویر احمد بھی شامل ہیں۔ انہوں نے فواد عالم کے شان دار کم بیک پر اُن کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔

ائن بشپ کا کہنا تھا کہ 12 ماہ میں چار سینچریاں بنانے والے فواد عالم کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔

سیموئل بدری کے بقول 60 رنز فی اننگز کی فرسٹ کلاس اوسط اور ڈیبیو پر سینچری کے باوجود فواد عالم کو 10 برس کرکٹ سے دور رکھنا زیادتی تھی۔

سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر تنویر احمد نے بھی فواد عالم کی فولادی اننگز پر انہیں مبارک باد دی۔

کس کس کھلاڑی کو فواد عالم کی جگہ موقع دیا گیا؟

سن 2009 میں سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ ڈیبیو کرنے والے فواد عالم نے پہلے ہی ٹیسٹ میں اننگز کا آغاز کرتے ہی 168 رنز اسکور کیے۔ لیکن پھر سیریز کے اختتام پر انہیں ڈراپ کر دیا گیا۔ ایسا ڈراپ کے اس کے بعد 10 برس تک انہیں پاکستان کی ٹیسٹ ٹیم میں جگہ نہ ملی۔

ان کی غیر موجودگی میں کئی نوجوان کھلاڑیوں کو ٹیم میں مستقل جگہ بنانے کے مواقع ملے لیکن کوئی بھی فواد عالم کا نعم البدل نہ بن سکا، جو کسی بھی پوزیشن پر بیٹنگ کر سکے جو رنز بنا کر ٹیم کو سہارا بھی دے۔

ان کھلاڑیوں میں اسد شفیق اور اظہر علی ٹیم میں مستقل جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے، لیکن ان دونوں کی کارکردگی بھی مصباح الحق اور یونس خان کے ریٹائر ہوتے ہی خراب ہونا شروع ہو گئی۔

عمر اکمل نے فواد عالم کے آنے کے ایک برس بعد ٹیسٹ ڈیبیو کیا تھا اور ان میں ٹیلنٹ بھی کوٹ کوٹ کر بھرا تھا، لیکن وہ زیادہ عرصہ ٹیسٹ کرکٹ میں نہ چل سکے۔ چار ٹیسٹ کھیلنے والے عمر امین کو ٹیسٹ ڈیبیو سے قبل ہی مستقبل کا کپتان قرار دے دیا گیا تھا۔ لیکن وہ بھی اُمیدوں پورا نہ اتر سکے۔

شان مسعود، سمیع اسلم، امام الحق اور فخر زمان جیسے بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے اوپنرز ہوں، یا پھر حارث سہیل، عثمان صلاح الدین اور ایوب ڈوگر جیسے مڈل آرڈر بلے باز ہر کسی کو ٹیسٹ ٹیم میں چانس ملا لیکن کوئی اس جگہ کو اپنا نہ بنا سکا جس پر فواد عالم کا نام لکھا ہوا تھا۔

دس برس کے عرصے کے بعد جب انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں قدم رکھا تو تھوڑا وقت خود کو سنبھالنے میں لگایا اور اس کے بعد سے اب تک ٹیم کو سنبھال رہے ہیں۔ اس وقت بھی ٹیم میں سب سے قابلِ بھروسہ بلے باز فواد عالم کو ہی سمجھا جاتا ہے۔

فواد عالم کو دس سال تک پاکستان ٹیم سے باہر رکھنے کا ذمہ دار کون؟

سابق ٹیسٹ کرکٹر ہارون رشید جو پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ بطور کوچ، منیجر اور چیف سلیکٹر بھی منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مصباح الحق کی مستقبل کے مطابق پلاننگ کی وجہ سے فواد عالم 10 برس تک ٹیسٹ کرکٹ سے دور رہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جن حالات سے قومی ٹیم اس وقت گزر رہی تھی۔ کپتان مصباح الحق کا نوجوانوں کو آزمانا ان کے خیال میں درست فیصلہ تھا۔ لیکن اب وہی مصباح الحق اسی فواد عالم کو چانس دے رہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔

ہارون رشید کے بقول ''ایک وقت تھا جب پاکستان کے مڈل آرڈر میں مصباح الحق، یونس خان اور اسد شفیق اچھا پرفارم کر رہے تھے اور یہی وجہ تھی کہ فواد عالم ٹیم کا حصہ نہیں بن پا رہےتھے۔ جب مصباح کپتان بنے تو ان کی سوچ یہ تھی کہ مستقبل کے لیے کھلاڑیوں کو تیار کرنا چاہیے نہ کہ ایسے کسی کھلاڑی کو واپس لایا جائے جو زیادہ عرصے تک پاکستان کی خدمت نہ کرسکے۔"

ہارون رشید کا کہنا تھا کہ کسی بھی کپتان کے لیے نئے لڑکوں کو چانس دینا غلط نہیں تھا، لیکن اگر سلیکشن کمیٹی اسے ٹیم میں رکھنا چاہتی تھی تو اسے موقع دینا بنتا تھا۔

اُن کے بقول "میں بھی جب چیف سلیکٹر تھا تو میں نے مصباح کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ میں فواد عالم کے سوا کوئی ایسا کھلاڑی نہیں ہے جو کہ مسلسل رنز کررہا ہو جو انٹرنیشنل لیول پر بھی مقابلہ کر سکے۔"

ہارون رشید نے یہ بھی کہا کہ فواد عالم جو ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کر رہے تھے ان کا پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ رہنا بے حد ضروری تھا۔ چاہے وہ یونس خان اور اسد شفیق کے متبادل کے طور پر ہی کیوں نہ رہتے۔

ہارون رشید کہتے ہیں درمیان میں فواد عالم کو ون ڈے ٹیم میں چانس ملا لیکن وہ پرفارم نہ کر سکے اور اُنہیں پھر ڈراپ کر دیا گیا جس کی وجہ سے مصباح الحق اُن سے نا اُمید ہو گئے تھے۔

ہارون رشید نے یہ بھی کہا کہ خوشی اس بات کی ہے جو کپتان فواد عالم کو اتنے برس تک فائنل الیون کا حصہ نہیں بننے دیتا تھا، آج وہی کپتان، کوچ بن کر اسی فواد عالم پر انحصار کر رہا ہے۔

ہارون رشید نے یہ بھی کہا کہ چند لوگوں کو فواد عالم کے بیٹنگ اسٹائل سے مسئلہ تھا۔ لیکن ویسٹ انڈیز کے چندرپال بھی تو ایسے ہی کھیلتے تھے اور رنز کرتے تھے، فواد عالم کا یہی اسٹانس اس وقت پاکستان ٹیم کے کام آ رہا ہے۔

فواد عالم کی تیکنیک اس وقت پاکستان میں سب سے بہتر ہے: راشد لطیف

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان راشد لطیف کے مطابق دنیائے کرکٹ کے لیے فواد عالم کسی کیس اسٹڈی سے کم نہیں، نہ صرف اس میں صبر، ہمت اور حوصلہ ہے بلکہ دماغی پختگی (مینٹل اپروچ) میں بھی وہ سب سے آگے ہے۔

اُن کے بقول 'فواد عالم پاکستان کی ہی نہیں، پرفارمنس کے لحاظ سے فرسٹ کلاس کرکٹ کے ٹاپ پرفامرز میں سے ایک ہیں۔ ان کا وکٹ پر کھڑے ہونے کا اسٹانس لوگوں کو سمجھ نہ آتا ہو، لیکن پاکستان میں سب سے بہتر ہے۔"

راشد لطیف کا کہنا تھا کہ فواد عالم جو 2001 میں ان کے ساتھ دورۂ نیوزی لینڈ پر گئے تھے، ہمیشہ سے ہی محنتی بلے باز تھے۔ کچھ برس قبل انہوں نے فواد عالم کو کیمپ میں مکی آرتھر کے پاس بھی بھیجا تھا۔ لیکن پاکستان ٹیم کے سابق کوچ نے انہیں صرف اس لیے سلیکٹ نہیں کیا کیونکہ وہ ان کے اسٹانس سے مطمئن نہیں تھے۔

سابق وکٹ کیپر بیٹسمین نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو چاہیے کہ فواد عالم کے کیس کو ایک مثال کے طور پر آنے والی نسلوں کے سامنے پیش کرے جس نے ہمت نہیں ہاری اور محنت جاری رکھی۔

اُن کے بقول "پاکستان کی جانب سے ظہیر عباس، جاوید میانداد، انضمام الحق، محمد یوسف، یونس خان، سب نے کھیلا، لیکن فواد عالم سب سے الگ ہے۔ انہیں ان کھلاڑیوں کی طرح مواقع نہیں ملے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔"

XS
SM
MD
LG