رسائی کے لنکس

فضائیہ ہاؤسنگ اسکینڈل: الاٹیز کو چھ ماہ میں بقایاجات ادا کرنے کا حکم


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں فضائیہ ہاؤسنگ اسکیم اسکینڈل میں گرفتار دو بلڈرز کو ضمانت پر رہا اور تمام متاثرہ الاٹیز کو چھ ماہ میں رقوم واپس کرنے کا حکم دیا ہے۔ البتہ دونوں بلڈرز کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ہی رکھا گیا ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کو حکم دیا ہے کہ وہ فی الحال اس کیس میں انکوائری روک دیں۔

عدالت نے حکم دیا ہے کہ پاکستان ایئر فورس کا ڈائیریکٹوریٹ اور میکسم کمپنی عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے حلف نامے کے تحت الاٹیز کو مکمل ادائیگی یقینی بنائیں۔

سندھ ہائی کورٹ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر چھ ماہ میں الاٹیز کو ادائیگیاں نہ کی گئیں تو چیئرمین نیب اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف دھوکہ دہی یا دیگر جرائم کے تحت تحقیقات شروع کر سکتے ہیں۔

کراچی۔حیدرآباد موٹر وے اور ناردرن بائی پاس کے قریب اس مجوزہ ہاؤسنگ اسکیم کا سنگ بنیاد 2015 میں پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) اور کراچی کی مارکیٹنگ کمپنی میکسم کے اشتراک سے رکھا گیا۔

سندھ ہائی کورٹ (فائل فوٹو)
سندھ ہائی کورٹ (فائل فوٹو)

نیب کے مطابق 400 ایکٹر پر محیط اس اسکیم میں لگ بھگ پانچ ہزار افراد نے پلاٹس کی مد میں 18 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی تھی۔

اس بارے میں جاری اشتہارات میں بتایا گیا تھا کہ یہاں لگژری فلیٹس، بنگلے، اسٹوڈیو اپارٹمنٹس، شاپنگ مالز، اسکول ،کالجز، جامعہ اور اسپتال تعمیر کیے جائیں گے۔

مذکورہ اسکیم میں خلیجی ملکوں سمیت پاکستان سے بھی ہزاروں افراد نے پلاٹس کی بکنگ کی مد میں اربوں روپے جمع کرائے۔ الاٹیز کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے پاکستان ایئر فورس کا نام دیکھ کر سرمایہ کاری کی تھی۔ لیکن کئی سال گزر جانے کے باوجود مذکورہ سوسائٹی میں ترقیاتی کام شروع نہیں ہو سکے۔

ہائی کورٹ کی جانب سے ملزمان کو ضمانت پر رہائی دینے کے حکم پر بعض الاٹیز اس پر سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے سوچ بچار کررہے ہیں۔

'یہ معاملہ عوام کو بڑے پیمانے پر دھوکہ دینے کا ہے'

ملزمان کو ضمانت دینے کے فیصلے میں عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس عوام کو بڑے پیمانے پر دھوکہ دینے سے متعلق ہے جس میں اصل نقصان ان متاثرین کا ہوا ہے جو الاٹیز تھے۔

سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ لوگوں نے اپنی خون پسینے کی کمائی اس ہاؤسنگ اسکیم میں لگائی جو اب نیب کی رپورٹ کے مطابق مکمل نہیں ہو سکتی۔

متاثرین کے وکلا نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ انہیں اس پراجیکٹ میں لگائے گئے پیسے واپس چاہئیں۔

عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ ایک ایسی ہاوسنگ اسکیم جس میں لوگوں کی زندگی بھر کی کمائی لگی ہوئی ہو اور وہ پراجیکٹ مستقبل میں مکمل ہونے کی کوئی امید بھی نہ ہو تو ایسے الاٹیز کے نقصان کا ازالہ نہ ہونے سے وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔

فیصلے پر فضائیہ ہاوسنگ اسکیم کے متاثرین نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔

بعض الاٹیز کے نزدیک یہ بہتر فیصلہ ہے جس سے ان کی ڈوبی ہوئی رقوم ملنے کی ایک امید پیدا ہوئی ہے جو ان کی عمر بھر کی کمائی ہے۔

البتہ کچھ کے خیال میں انہیں اصل رقم کے ساتھ چار سال سے لگائی گئی سرمایہ کاری پر سود کی ادائیگی کے علاوہ پاکستانی کرنسی میں ہونے والی گراوٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے رقم ادا کی جائے۔

شہریوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ان بدعنوان سرکاری افسروں کو بھی سزا ملنی چاہیے جن کی وجہ سے پاکستان ایئر فورس کا نام بدنام ہوا اور ہزاروں لوگ ذہنی اذیت کا شکار ہوئے۔

فیصلے پر پاکستان ایئر فورس کا خیر مقدم

فیصلے پر ایئر فورس کی جانب سے جاری کی گئی مختصر پریس ریلیز میں ملزمان کی ضمانت پر رہائی کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ فضائیہ کا ڈائریکٹوریٹ آف اسٹیٹ متاثرہ افراد کے مفادات کے لیے کوشاں رہا ہے۔ لہذٰا وہ متاثرین تک رقوم کی ادائیگی تک اُن کا ساتھ دے گا۔

الاٹیز کی جانب سے احتجاج اور سوشل میڈیا پر پاکستان کی فضائیہ کے اس منصوبے پر بے حد تنقید کے بعد نیب نے اس معاملے میں گزشتہ سال نومبر میں تحقیقات کا فیصلہ کیا۔ نیب نے دو ملزمان تنویر احمد اور اس کے بیٹے بلال تنویر کو گرفتار کر کے تحقیقات شروع کی تھیں۔

اسکیم پر کئی سال گزر جانے کے باوجود کام شروع نہیں ہو سکا تھا۔
اسکیم پر کئی سال گزر جانے کے باوجود کام شروع نہیں ہو سکا تھا۔

نیب حکام کی جانب سے عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ منصوبے کا کچھ حصہ اس زمین پر تعمیر کیا جارہا تھا جو کراچی کو اضافی پانی کی فراہم کے لیے مختص کی گئی تھی۔

نیب کے مطابق گرفتار بلڈرز کے ایسے درجنوں اکاونٹس کا بھی سراغ لگایا گیا ہے جہاں شہریوں کی جانب سے لیے گئے پیسے رکھے جا رہے تھے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو یہ بتایا تھا کہ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ فضائیہ نے یہ اسکیم شہدا کے اہل خانہ کے لیے شروع کی تھی۔ لیکن شہدا کے لواحقین کے لیے صرف 30 فی صد کوٹہ رکھا گیا۔

باقی تمام پلاٹس کمرشل بنیادوں پر فروخت کیے جا رہے تھے۔ اسکیم کا لے آوٹ پلان اور این او سی حاصل کیے بغیر ہی اشتہارات، خرید و فروخت اور بکنگ تک شروع کردی گئی تھی جو کہ غیر قانونی عمل اور عوام سے دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے۔

XS
SM
MD
LG