رسائی کے لنکس

بےخوفی ، خوبی ہے یا دماغ کا خلل


بےخوفی ، خوبی ہے یا دماغ کا خلل
بےخوفی ، خوبی ہے یا دماغ کا خلل

انسانی جذبا ت میں پیار ،محبت ،غصے ،اور خوف کےاحساسات کو اہمیت حاصل ہے کیوں کہ یہ سب انسانی رویوں اور کردار کے تعین میں اہمیت رکھتے ہیں ۔ آج ہم ذکر کر رہے ہیں ان میں سے صرف ایک جذبے اور احساس کا اور وہ ہے خوف یا ڈر کا احساس۔

ڈر اور خوف ایک حد تک انسانی بقاء اور سماجی زندگی میں سکون سے زندگی گزارنے کے لیے اہم ہوتا ہے ۔ خطرناک چیزوں سے ڈر اور خوف ہمیں ان سے بچنے میں مدد دیتا ہے ۔ ڈر اور خوف ایک اکتسابی عمل ہے یعنی ہم چیزوں یا خطرناک چیزوں سے ڈرنا سیکھتے ہیں۔ سانپ سے ، جنگلی جانور سے ، آگ سے ، طوفان سے ،اور سماجی زندگی میں ، خطرناک افراد سے ، مسلح افراد سے ،اور فی الواقع اپنے سے طاقتور اور با اختیار افراد سے ڈر ہی میں ہماری بقا اور سکون کا راز پوشیدہ ہے ۔ اور ہم ان سب سے ڈرنا سیکھتے ہیں۔

پروفیسر جسٹن فان سٹائن
پروفیسر جسٹن فان سٹائن

سیکھنے کا یہ عمل دماغ کے کس حصے سے منسلک ہے اس کے بارے میں اب تک کوئی بات وثوق سے نہیں کہی گئی تھی۔ تاہم حال ہی میں سائنسدانوں نے پتہ چلایا ہے کہ ڈر اور خوف کا تعلق دماغ کے ایک مخصوص حصے میں موجود ایک مخصوص اسٹرکچر amygdala سے ہے ۔ اگر اس حصے میں کوئی خرابی واقع ہو جائے یا کسی وجہ سے یہ حصہ دماغ میں موجود نہ ہو یا اسے دماغ سے نکال دیا جائے تو انسان بے خوف ہوجاتا ہے۔

سائنسدان ایک عرصے سے یہ بات جانتے تھے کہ دماغ کے اس حصے کا تعلق جذبات اور احساسات کے سیکھنے سے ہے۔ جانوروں پر کیے جانے والے تجربات سے ظاہر کرچکے ہیں کہ اس حصے کو دماغ سے نکال دینے سے ان میں ڈر اور خوف کا احساس جاتا رہاتھا۔ لیکن اس بارے میں کسی انسان پر ایسے تجربات نہیں کیےگئے تھے، اور نہ ہی سائنسدانوں کے علم میں کوئی ایسا شخص آیا تھا کہ جس کے دماغ میں یہ حصہ نہ ہو ۔ لیکن حال ہی میں سائنس دانوں کو ایک ایسی خاتون کا پتا چلا جسے کسی بھی چیز سے خوف نہیں محسوس نہیں ہوتا تھا ۔

جریدے کرنٹ بیالوجی میں شائع ہونے والی ایک ریسرچ میں ماہرین نے ایک اس عورت پر جس کا نام پوشیدہ رکھتے ہوئے اسے ایس ایم کہا گیا ہے، ڈر اور خوف کے بارے میں تجربات کیے ۔تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس کے دماغ میں ایک مخصوص حصہ amygdale موجود نہیں تھا۔ یہ ایسا پہلا انسانی واقعہ ہے،جس کا انکشاف آئیوا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے جریدے کرنٹ بائیولوجی میں کیا ۔

ایس ایم کے بارے میں معلوم ہوا کہ اگرچہ اسے اپنے بچپن میں تو کسی چیز سے ڈرنا یاد ہے اور اسے علم ہےکہ کچھ چیزیں خطرناک ہوتی ہیں لیکن بڑے ہونے کے بعد وہ کسی بھی خطرناک چیز سے کسی بھی قسم کا ڈر محسوس نہیں کرتی ۔

اس نے بتایا کہ اسے اپنی زندگی میں چاقو یا بندوق کے حملے کے امکان کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن وہ ان سے بالکل خوفزدہ نہیں ہوئی۔ سائنسدانوں نے تجربات کے دوران اس عورت کو انتہائی خطرناک اشیاء کا سامنا کرایا ، جن میں سانپ،مکڑیاں ، خوفناک فلمیں اور آسیب زدہ عمارتین شامل تھیں لیکن اسے کسی بھی موقع پر خوف محسوس نہیں ہوا۔

جب خاتون سے پوچھا گیا کہ وہ خطرناک چیزوں کو کس احساس کے تحت چھونے کی کوشش کرتی ہے تو اس کا جواب تھا وہ ایسا تجسس کے جذبے کے تحت کرتی ہے۔ وہ ان چیزوں کی اصل جاننا چاہتی ہے۔

تجرباتی ٹیم کے سر براہ پروفیسر جسٹن فن سٹین(Justin Feinstein)کو اس پر حیر ت تھی کہ انتہائی خطرناک چیزوں سے ڈر ے بغیر اور ان کا بے خوفی سے سامنا کرنے کے باوجود وہ عورت اب تک کیسے زندہ ہے۔

سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اس دریافت کی مدد سے اور ایس ایم پر مزید تجربات کے ذریعے وہ ڈر اور خوف کے عمل کی جزیات کا پتا لگانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور یہ کہ ان خوف سے متاثرہ افراد کے ذہنی دباؤ کا علاج دریافت کرسکتے ہیں۔

اس تحقیق سے اور بھی کئی مفید پہلو سامنے آ سکتے ہیں۔ لیکن ایک اہم پہلو یہ ہے کہ کیا اس ریسرچ کے بعد معاشرے کے ان افراد کے بارے میں ہماری رائے تو متاثر نہیں ہو سکتی جنہیں معاشرہ انتہائی بے خوف اور جرآت مند اور بہادر قرار دیتا ہے ، جو کسی بھی طوفان ، خطرے اور کسی بھی خوفناک صورتحا ل کا سامنا انتہائی بے خوفی سے کرتے ہیں۔ کیا انہیں دلیری کے خطابات دینے سے قبل ہم یہ تونہیں سوچیں گے کہ ان کے دماغ میں خوف سے متعلق حصے میں کوئی خرابی ہے یا وہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتہائی بے خوف اور جرآت مند لوگوں کے دماغ میں اس حصے کی نشوونما اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے ، جس کی وجہ سے وہ انتہائی پرخطر حالات کا مقابلہ انتہائی بے خوفی سے کر سکتے ہیں۔ تو وہ یا تو انتہائی با صلاحیت نارمل افراد ہیں یا دماغ کے ایک انتہائی اہم حصے سے عاری ایک ایبنارمل انسان ۔ لیکن کا تعین صرف لیبارٹری ہی میں کیا جا سکے گا ۔ ہم اور آپ تو صرف اپنی سوچ کا اظہار ہی کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG