رسائی کے لنکس

مساج سینٹر پر چھاپہ مارنے والے پولیس افسر کی مبینہ گمشدگی اور واپسی، قومی راز افشا کرنے کے الزام میں گرفتار


فائل فوٹو
فائل فوٹو

اسلام آباد کی پولیس کے تھانہ گولڑہ کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) ظہور احمد کے مبینہ طور پر لاپتا ہونے اور پھر واپس گھر آنے کے کچھ روز بعد ہی قومی راز افشا کرنے کے الزام میں گرفتاری کا معاملہ اب تک معمہ بنا ہوا ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اے ایس آئی کو گرفتار کر لیا ہے۔ البتہ اسلام آباد پولیس باضابطہ طور پر اس افسر کے حوالے سے کوئی بیان دینے سے گریز کر رہی ہے۔

اس معاملے میں سوشل میڈیا پر بعض حلقے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ظہور احمد کو ایک مساج سینٹر پر چھاپے کے بعد اس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

گزشتہ ماہ پولیس کے اے ایس آئی کے مبینہ طور پر غائب ہونے پر ان کے بھائی کی درخواست سامنے آئی تھی۔ تاہم کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا تھا جس کے تین روز بعد ظہور احمد کی واپسی ہوئی اور ان کے تحریری بیان کے مطابق وہ دوستوں کے ساتھ مری گھومنے چلے گئے تھے۔

اے ایس آئی ظہور احمد کہاں گئے تھے؟

پولیس کے اے ایس آئی ظہور احمد کے بارے میں گزشتہ ماہ 28 نومبر کو یہ اطلاع ملی تھی کہ وہ مبینہ طور پر غائب ہو گئے ہیں۔ ان کے اہل خانہ نے اس بارے میں اسلام آباد کے تھانہ گولڑہ میں مقدمے کے اندراج کے لیے درخواست دی تھی۔

مذکورہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ ظہور احمد گزشتہ کئی گھنٹوں سے لاپتا ہیں اور ان کے بارے میں اہل خانہ کو علم نہیں ہے جس پر ان کے بھائی نے تھانہ گولڑہ میں مقدمے کے اندراج کی درخواست دی تھی۔ البتہ اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی مقدمہ درج ہوا۔

اس معاملے میں جب ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے اسلام آباد پولیس کے مختلف افسران سے رابطے کی کوشش کی تو کسی افسر نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا۔

بعد ازاں 29 نومبر کو ظہور احمد کی ایک آڈیو ٹیپ سامنے آئی۔ یہ آڈیو ظہور کی طرف سے اپنی اہلیہ کے واٹس ایپ پر بھیجی گئی تھی۔ آڈیو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ دوستوں کے ساتھ مری میں ہیں اور سگنل نہ ہونے کی وجہ سے کسی سے رابطہ نہیں کر سکتے۔

بعد ازاں 30 نومبر کو ظہور واپس اپنے گھر پہنچے۔ وہ مبینہ طور پر زخمی حالت میں تھے اور ان کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے۔ البتہ اس معاملے پر بھی کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا بلکہ ایک بیان ریکارڈ کیا گیا جس میں ظہور احمد نے کہا کہ وہ دوستوں کے ساتھ مری گئے ہوئے تھے۔

ظہور احمد اور مساج پارلر پر چھاپے کا معاملہ کیا ہے؟

اس پولیس افسر کے غائب ہونے کے پیچھے ایک ایف آئی آر کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ان کے مبینہ طور پر غائب ہونے سے دو دن قبل تھانہ گولڑہ میں درج کی گئی تھی۔

اس ایف آئی آر کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) ثانیہ حمید کے ہمراہ پولیس نے عوامی شکایت پر سیکٹر ای-الیون تھری میں مختلف مساج سینٹرز کا معائنہ کیا جہاں سن شائن نامی مساج سینٹر پر چھ مرد اور چار خواتین کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی طرح روز ایگزیکٹو مساج سینٹر سے بھی چھ خواتین کو گرفتار کیا گیا تھا اور ان مساج سینٹرز کے مالکان کے خلاف مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔

اس مقدمے میں گرفتار ایک شخص کے حوالے سے سوشل میڈیا پر یہ اطلاع زیرِ گردش رہی کہ وہ حساس ادارے کا اہلکار تھا اور اپنا تعارف کرانے پر اس نے خود کو چھوڑنے کا بھی کہا۔ تاہم پولیس نے اس سے انکار کرکے مقدمہ درج کیا۔

بعد ازاں اسلام آباد کی مقامی عدالت نے مقدمے میں نامزد ملزمان کی ضمانتیں منظور کیں۔

البتہ سوشل میڈیا پر بعض افراد کا دعویٰ ہے کہ یہ چھاپہ ہی ظہور احمد کے مبینہ طور پر غائب ہونے کی وجہ بنا۔ کیوں کہ واپسی کے بعد انہیں بیان ریکارڈ کرانے کے کچھ دن بعد ہی چھٹی پر بھیج دیا گیا۔​

ظہور احمد کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کا مقدمہ

دوسری جانب ظہور احمد کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کے انسدادِ دہشت گردی ونگ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عظمت خان کی طرف سے درج ہونے والے مقدمے کے مطابق ایک مخبر کے ذریعے سے انہیں اطلاع ملی کہ اسلام آباد پولیس کے اے ایس آئی ظہور احمد بلیو ایریا اسلام آباد میں غیر ملکی سفارت کار کو ملک کی سلامتی سے متعلق اہم معلومات دے رہے ہیں۔

ایف آئی آر کے مطابق گاڑی نمبر 'کیو ایل 787' کے بارے میں اطلاعات موجود تھیں جس پر چھاپہ مار ٹیم وہاں موجود تھی۔ اس دوران ظہور احمد آئے اور اس گاڑی میں بیٹھ گئے اور گاڑی وہاں سے چلی گئی۔ کچھ دیر بعد یہی گاڑی دوبارہ واپس آئی اور اس سے ظہور احمد اترے۔

مقدمے کے متن کے مطابق بعد ازاں جب ظہور احمد کو روک کر ان کی تلاشی لی گئی تو ان کے قبضے سے دو موبائل فون، پرس اور ایک لفافہ ملا جس میں پچاس ہزار روپے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق موقع پر ہونے والی تفتیش میں ظہور احمد نے بتایا کہ وہ غیر ملکی سفارت کار اور ایجنٹ سے ملاقات میں انہیں اہم معلومات اور دستاویزات دے رہے تھے۔ اسی مقصد کے لیے انہیں 50 ہزار روپے دیے گئے تھے۔

تفتیش کے بعد ایف آئی اے نے ظہور احمد کو گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ منگل ان کا چار روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کرلیا گیا ہے۔

ایک اے ایس آئی کو قومی راز تک رسائی کیسے حاصل ہوئی؟

اے ایس آئی ظہور احمد پر لگائے گئے الزامات پر سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے۔ مختلف لوگوں کی طرف سے یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ ایک اے ایس آئی کے پاس ایسے کون سے راز تھے جس کی وجہ سے اس کے خلاف قومی راز افشا کرنے کا مقدمہ درج کیا گیا۔

انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والی خاتون وکیل ایمان زینب مزاری نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں اے ایس آئی کی گرفتاری پر کچھ سوالات اٹھائے۔

ایمان زینب مزاری نے، جو وفاقی وزیر شیریں مزاری کی صاحب زادی ہیں، سوشل میڈیا پر تبصرہ کیا کہ ایک معمولی اے ایس آئی کو قومی راز تک رسائی کیسے حاصل ہوئی؟ اگر ان کے پاس ایسے اہم قومی راز تھے تو کیا وہ اتنے بے وقوف تھے کہ انہیں صرف 50 ہزار روپے کے عوض فروخت کرتے؟

انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اس خبر پر بھی وضاحت چاہیے کہ پولیس چھاپے میں ایک حساس ادارے کے اہلکار کو گرفتار کیا گیا تھا اور اس ساری کارروائی کا مقصد پولیس کو سبق سکھانا تھا۔

ادھر جب اس معاملے پر ایمان زینب مزاری سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اپنے ایک واٹس ایپ پیغام میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر ظہور احمد کے اہل خانہ ان سے رابطہ کریں تو وہ یہ کیس لڑنے کے لیے تیار ہیں۔

سوشل میڈیا پر یہ سوالات بھی اٹھائے جا رہے ہیں کہ وہ غیر ملکی سفارت کار کون تھے اور ان کا تعلق کس ملک سے تھا؟ اور اگر اس گاڑی کا نمبر موجود ہے تو کیا اس سفارت خانے سے کوئی رابطہ کیا گیا؟

دوسری جانب مذکورہ معاملے پر اسلام آباد پولیس کے ترجمان سمیت مختلف افسران سے رابطہ کیا گیا۔ البتہ کسی بھی افسر کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ملزم ظہور احمد کے وکیل جواد عادل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے مؤکل پر آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کے ریمانڈ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔

البتہ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ایسے شواہد ہیں جس کے مطابق یہ کیس جھوٹا، بوگس اور بدنیتی پر مبنی ثابت ہو جائے گا۔

XS
SM
MD
LG