رسائی کے لنکس

پاکستانی خاتون کی زندگی پر بنی فلم ’آسکر‘ میں نامزدگی کی منتظر


صوبے سندھ کے ایک قصبے قاضی احمد میں گھر،خاندان اور کھیتوں تک محدود عام زندگی گزارنے والی مختیار ناز نے خاندان ہی کے تحفظ کے لئے بندوق اٹھائی اور بہادری کا وہ مظاہرہ کیا جو عام طور پر پاکستانی معاشرے میں ’مردوں‘ کے لئے مخصوص تصور کیا جاتا ہے۔

عام طور پر ہر کہانی کا مضبوط کردار ’ہیرو‘ کے روپ میں کوئی مرد ہوتا ہے جو کبھی ہتھیار پکڑ کر تو کبھی خالی ہاتھ دشمنوں کے چھکے چھڑا دیتا ہے لیکن ایک کہانی ایسی بھی ہے جس میں ’ٹوئسٹ‘ ہے اور وہ بھی بہت بڑا ۔۔اور۔۔ایکشن سے بھرپور۔

مختیار ناز جیتی جاگتی حقیقی زندگی کا ایسا کردار ہیں جس نے فلم میکرزکو ان کی کہانی بڑے پردے پرپیش کرنے پر مجبورکر دیا۔

’وڈیری ناز دھاریجو‘ کی زندگی پر پاکستانی نژاد برطانوی فلم میکر سرمد مسعود نے 2013 میں فلم بنانے کا فیصلہ کیا اور نتیجہ 98 منٹ کی اردو زبان کی فلم ’مائے پیور لینڈ‘ کی صورت میں سامنے آیا۔ فلم میں سوہائے ابڑونے مرکزی کرادار ادا کیا ہے۔

سرمد مسعود کا اے ایف پی سے گفتگو میں کہنا ہے’ مجھے مختیار ناز کی جرات اور بہادری نے بہت متاثر کیا تھا۔ مشکل حالات اور سخت گرمی میں فلم صرف 30 دن میں لاہور میں مکمل کی۔ اس دوران شدید گرمی کی وجہ سے مجھے اور میری بیوی کو اسپتال میں داخل بھی ہونا پڑا لیکن آسکر نامزدگی کے لئے مقابلے میں شامل ہونے پرخوشی ہے۔ یہ بڑے اعزازکی بات ہے۔‘

’مائے پیور لینڈ‘ کو غیر ملکی زبان کی کیٹگری میں برطانیہ کی جانب سے آفیشل اینٹری کے طور آسکر ایوارڈز کی نامزدگی کے لئے بھیجا گیا ہے۔ رواں سال ریکارڈ 92 ممالک کی فلمیں آسکر ایوارڈز میں نامزدگی حاصل کرنے کی دوڑ میں شریک ہیں۔ ان فلموں میں انجلینا جولی کی کمبوڈیا میں نسل کشی پربنی فلم ’فرسٹ دے کلڈ مائی فادر‘بھی شامل ہے۔ آسکر نمائندگیوں کا اعلان جنوری میں کیا جائے گا۔

صوبے سندھ کے ایک قصبے قاضی احمد میں گھر،خاندان اور کھیتوں تک محدود عام زندگی گزارنے والی مختیار ناز نے خاندان ہی کے تحفظ کے لئے بندوق اٹھائی اور بہادری کا وہ مظاہرہ کیا جوعام طور پر پاکستانی معاشرے میں ’مردوں‘ کے لئے مخصوص تصور کیا جاتا ہے۔

یہ ذکر ہے اگست 2005 کی ایک حبس زدہ گرم رات کا جس کا آغاز تو عام راتوں کی طرح ہوا لیکن مختیار ناز اور ان کے خاندان کے لئے وہ رات کبھی نہ بھولنے والی رات بن گئی۔

زمین جائیداد کے تنازع پر پانچ سال طویل قانونی جنگ ہارنے کے بعد مختیارناز کے مخالفین نے بدلہ لینے کی ٹھانی اور 200 مسلح افراد نے ان کے گھر کا گھیراؤ کر لیا۔

مختیار ناز دھاریجو کےاپنے الفاظ میں ۔۔’’میرے پاس اس وقت دوہی راستے تھے، مارو۔۔یا۔۔ مرجاؤ۔۔ میں پہلے کا انتخاب کیا اور سوچا کہ اگر مرنا ہے تو پھرمار کر مرنا بہتر ہے۔

وہ اپنے شوہر، بہنوں اور کچھ دوستوں کے ساتھ ہتھیار تھام کر گھر کی چھت پر چڑھ گئیں اور ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اس مقابلے میں انہیں اپنے کچھ عزیزوں اور دوستوں سے جدائی کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹیں۔

مختیار کے شوہر ذوالفقار دھاریجو نے فرانسیسی خبرایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اس کی بہت منت سماجت کی کہ یہ چھت پر سے نیچے چلی جائے۔ مجھے اس کی جان کی فکر تھی لیکن اس نے میری ایک نہ سنی اور ہم سب کے شانہ بشانہ ڈٹی رہی۔

اس واقعے کے بعد سے گاؤں کے لوگوں نے مختیار ناز کو ’وڈیری‘ کہہ کربلانا شروع کر دیا۔ یہ بھی ایک منفرد واقعہ ہے کیونکہ مقامی رسوم و رواج کے مطابق ’وڈیرے‘ کا لقب گاؤں کے با اثر زمیندارکے لئے استعمال ہوتا ہے جو تمام تر اختیارات کا مالک ہوتا ہے۔ اب ’وڈیری‘ ناز نہ صرف گاؤں کے لوگوں کے مسائل سنتی ہیں بلکہ انہیں حل کرنے میں ہرممکن مدد بھی دیتی ہیں۔

روایتی جاگیردار گھرانے میں آنکھ کھولنے والی مختیارناز دھاریجو نے خود کو ہمیشہ غیر روایتی ثابت کیا۔جس گھرانے میں لڑکیوں کی تعلیم صرف دینی تعلیم تک محدود تھی وہاں انہوں نے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے والد کو رضامند کیا کہ وہ انہیں اور ان کی بہنوں کو انگلش پڑھنے کی اجازت دیں۔ اس کے بعد مختیار نے سندھ یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر اکنامکس میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔

XS
SM
MD
LG