رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان کی کامیابی پر جشن منانے والے طلبہ پر مقدمات درج


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے دارالحکومت سری نگر کے دو سرکاری میڈیکل کالجوں کے طلبہ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میچ میں بھارت کے خلاف پاکستان کی کامیابی پر جشن منانے پر مقدمہ درج کر لیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ سری نگر کے ’شیرِ کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز‘ اور ’گورنمنٹ میڈیکل کالج‘ کے ہاسٹل میں مقیم طلبہ نے ٹیلی وژن پر پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ دیکھنے کے دوران پاکستان کی کامیابی پر نعرے لگائے اور آتش بازی کی۔ حکومت نے اس صورتِ حال کا نوٹس لیا ہے۔

طلبہ کے خلاف سری نگر کے دو پولیس تھانوں میں درج کی گئی ایف آئی آرز میں کسی ملزم کا نام شامل نہیں کیا گیا ہے۔ پولیس ذرائع نے بتایا ہے کہ جشن میں شریک ہونے والے کئی طلبہ اور طالبات کی شناخت کر لی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی آر میں ان طلبہ پر عائد کیے گئے الزامات ثابت ہونے پر کالجوں سے ان کے داخلے منسوخ ہونے کا امکان ہے۔

سات سال کی سزا

پولیس نے مذکورہ کالجوں کے طلبہ کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون کی دفعہ 13 کے تحت مقدمات درج کر دیے ہیں۔ یہ الزامات ثابت ہونے پر ملزم کو سات سال تک کی قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

بھارتی کشمیر میں صحافت اور صحافی مشکل میں
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:14 0:00

اس کے علاوہ طلبہ پر امن و امان خراب کرنے کے ارادے سے شر انگیزی کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

پولیس نے ان الزامات کے ثبوت کے طور پر وہ ویڈیوز ریکارڈ میں شامل کی ہیں, جن میں طلبہ کو مبینہ طور پر جشن مناتے اور پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ 24 اکتوبر کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ٹی 20 ورلڈ کپ کے میچ کے بعد یہ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھیں۔

کئی مقامات پر جشن

اتوار کی رات کو مسلم اکثریتی وادیٴ کشمیر میں لوگوں نے کئی مقامات پر سڑکوں پر آ کر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی جیت پر جشن منایا تھا۔

انہوں نے خوشی میں رقص کیا، نعرے لگائے اور پاکستان کا قومی پرچم بھی لہرایا۔ اس کے علاوہ خاص طور پر ان علاقوں میں, جہاں بھارتی فورسز کی موجودگی نہیں تھی, آتش بازی کی گئی۔ یہ سلسلہ آدھی رات تک جاری رہا۔

سڑکوں اور گلیوں میں خوشی کے اظہار کے ساتھ کئی افراد نے سوشل میڈیا پر پاکستان اور اس کی ٹیم کو مبارک باد دی۔

وادی میں سڑکوں پر منائی جانے والی خوشی اور میچ کے دوران بنائی گئی کچھ ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی گئیں جن میں دبئی میں مقیم کشمیری تارکینِ وطن کو پاکستانی ٹیم کی حمایت میں نعرے بازی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

’کھیل کو سیاست سے نہ جوڑا جائے‘

بہت سے کشمیریوں نے اپنی فیس بک پوسٹس اور ٹوئٹس میں اس بات پر زور دیا کہ سیاست کو کھیل سے دور رکھا جانا چاہیے۔

انہوں نے پاکستانی کرکٹر شاہد آفریدی کے ایک حالیہ بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کھیل ایک ایسی چیز ہے جو امن قائم کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کر سکتی ہے اور اس مقصد کے لیے اس کا خوب استعمال ہونا چاہیے اور اسے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کا ایک ذریعہ بنایا جائے۔

بھارتی کشمیر میں لڑکیوں کی بر وقت شادی نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:20 0:00

انہوں نے ایسی تصاویر بھی پوسٹ کیں جن میں بھارتی کپتان وراٹ کوہلی اور پاکستانی بلے باز محمد رضوان کو پاکستان کے میچ جیتنے کے بعد ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے دکھایا گیا تھا۔

شاہد آفریدی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے لوگوں کو جیت یا ہار کو ایک جیسے جذبے سے لینا چاہیے۔

بھارتی پنجاب میں کشمیری طلبہ پر مبینہ حملے

اس ہلچل کے درمیان یہ خبر بھی آئی کہ پاکستان کے میچ جیتنے کے فوراً بعد بھارتی پنجاب کے دو کالجوں میں زیرِ تعلیم کشمیری مسلمان طلبہ پر مبینہ طور پر تشدد کیا گیا اور ان کے ہاسٹل کے کمروں کو غیر مقامی طلبہ کے گروپوں نے توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا۔

کشمیری طلبہ نے دعویٰ کیا ہے کہ حملہ آور بھارتی ریاستوں بہار، اتر پردیش اور ہریانہ کے اُن کے ساتھی طلبہ تھے جب کہ مقامی اور دیگر پنجابی طلبہ نے انھیں بچایا۔

لیکن مقامی پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہیں جوابی شکایات موصول ہوئی ہیں کہ جب میچ جاری تھا تو کشمیری طلبہ نے خوشی کا اظہار کیا۔

حکام کا کہنا ہے کہ جب پاکستانی کھلاڑی رنز بنا رہے تھے اور وکٹیں لے رہے تھے تو کشمیری طلبہ نے آزادی کے حق میں نعرے بھی لگائے۔ اس کے بعد جب میچ ختم ہوا تو یوپی اور بہار کے طلبہ، کشمیری طلبہ کے کمروں میں داخل ہو گئے اور ان کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔

ایک پولیس عہدے دار سوپن شرما نے دعویٰ کیا ہے کہ فریقین نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور پولیس اور کالج حکام کے سامنے معذرت کی ہے جس سے معاملہ حل ہو گیا ہے۔

سخت کارروائی کا مطالبہ

وادیٔ کشمیر میں پاکستان کی جیت پر جشن منانے پر بھارت میں بعض حلقوں کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ کئی سوشل میڈیا صارفین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جشن منانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

ریاست مہاراشٹرا میں برسرِ اقتدار شیو شینا کے لیڈر اور رکنِ پارلیمنٹ سنجے راوت نے کہا ہے کہ وادیٔ کشمیر میں پاکستان کی جیت پر جشن منانے اور اس دوران بھارت مخالف نعرے لگانے کے واقعات بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ کے دورے کے موقعہ پر پیش آئے ہیں اور یہ یقینی طور پر ایک تشویش ناک معاملہ ہے۔

واضح رہے بھارتی وزیرِ داخلہ نے جموں و کشمیر کے اپنے تین روزہ دورے میں عوامی اجتماعات اور سرکاری تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے حکومتِ بھارت کے اس دعوے کو بار باردوہرایا تھا کہ اگست 2019 میں جموں و کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کرنے کے بعد علاقے میں امن و امان بحال ہو گیا ہے۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس فیصلے کے بعد کشمیر میں تشدد میں کمی آ گئی ہے اور نوجوانوں کی طرف سے سنگ باری پر مکمل قابو پا لیا گیا ہے۔

اس دوران جموں خطے کے سانبہ ضلع میں بعض لوگوں کی طرف سے پاکستان کی جیت پر جشن منانے کی ایک ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے منگل کو ایک مقدمہ درج کرنے کے بعد سات افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

’کشمیریوں کے خلاف غم و غصہ بلا جواز ہے‘

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی جیت پرخوشی منانے پر کشمیریوں کے خلاف اتنا غصہ کیوں؟

انہوں نے کہا کہ چند ایک قاتلانہ نعرے بھی لگا رہے ہیں۔ دیش کے غداروں کو گولی مارو۔ میں یہ بھولی نہیں ہوں کہ جب جموں و کشمیر کے حصے بخرے کئے گئے اور اسے خصوصی حیثیت سے محروم کیا گیا تو کئی لوگوں نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔

میڈیکل کالجوں کے طلبہ کے خلاف پولیس کے مقدمے درج کرنے پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ بھارتی وزیرِ داخلہ نے اپنے دورے میں کشمیری نوجوانوں سے دل کی بات کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن ان کے بقول، "من کی بات طلبہ پر مقدمے درج کرنے سے ہوئی ہے"۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومتِ بھارت تعلیم یافتہ کشمیری نوجوانوں کی اپنی شناخت پاکستان کے ساتھ کرانے کی وجوہات معلوم کرانے کی بجائے انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔

محبوبہ مفتی نے کہا کہ ایسی کارروائیوں سے حکومت اور نوجوانوں کے درمیان دوریاں مزید بڑھ جائیں گی۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی کئی دوسری سیاسی جماعتوں اور لیڈروں نے بھی طلبہ پر مقدمے درج کرنے کے اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور مقدمات واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔

کشمیر میں طلبہ کی ایک تنظیم نے معاملے کو طول نہ دینے بلکہ فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

’بھارت کے خلاف سازش‘

بھارت کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینہ نے پاکستان کی جیت پر جشن منانے کے واقعات کو بھارت کے خلاف ایک سازش قرار دیا ہے۔

منگل کو جموں میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ جو بھی ہمارے وطن کی علاقائی سالمیت اور حاکمیت کے خلاف خطرہ پیدا کرے اسے نیست و نابود کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں نے کشمیر میں اور دوسرے مقامات پر پاکستان کی جیت پر جشن منایا اور ایک سازش کے تحت ہنگامہ آرائی کی، ان کی شناخت کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس، سی آئی ڈی اور نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی ان کے خلاف کارروائی کریں گی اور ان سب کو جیل میں ڈال دیا جائے گا۔

’پولیس بتائے کب تالیاں بجائیں‘

سرکردہ کشمیری صحافی پیرزادہ عاشق نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ یا تو کشمیر میں ورلڈ کپ میچز ٹیلی ویژن پر دکھانا بند کر دیے جائیں یا پھر پولیس میچ دیکھنے والے کشمیریوں کے لیے اصول طے کرے کہ وہ کب قہقہہ لگائیں، کب تالیاں بجائیں اور کب خاموش بیٹھیں۔

لیکن ایک پولیس عہدے دار امتیاز حسین کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف پاکستان کی جیت پر جشن منانے تک ہی محدور نہیں بلکہ اُن کے بقول خفگی کا نتیجہ ہے۔

انہوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ یہ صرف کسی کرکٹ ٹیم کے لیے محض حمایت کا معاملہ نہیں ہے۔

ان کے مطابق یہ اس شکایت کا نتیجہ ہے کہ کم سے کم یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ ایک ارب تیس کروڑ (بھارتی) عوام کے خون پسینے کی کمائی سے فائدہ اٹھانے سے باز آیا جائے۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG