رسائی کے لنکس

افطار سے پہلے پکوان کی خوشبو بھلائے نہیں بھولتی


لڑکپن اور اوائلِ جوانی کا دور تھا۔ رمضان کے دنوں میں اور گھرانوں کی طرح ہمارے گھر میں بھی افطار کا خاص اہتمام کیا جاتا تھا اور کچھ چیزیں ایسی تھیں جن کا افطار کے دستر خوان پر باقاعدہ کھانے اور دوسری چیزوں کے علاوہ ہونا لازمی تھا۔ ان میں پکوڑے، لونگ چڑے (مجھے آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کی وجہ تسمیہ کیا تھی)، پھلوں کی چاٹ اور شربت سرِ فہرست تھے۔

مجھے خود تو یہ پکوڑے بنانے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ لیکن والدہ کو بناتے یا کام کرنے والی خاتون سے - جنہیں ہم سب احترام سے بوا کہتے تھے - بنواتے ہوئے ضرور دیکھا ہے۔ بیسن کا پیسٹ بنا کر اس میں سرخ مرچ، نمک اور کٹی ہوئی بہت ساری پیاز ڈال کر کڑاہی میں تلا جاتا تھا۔ اور پھر سرخ مرچ اور لہسن کی یا سبز مرچ اور ہرے دھنیے کی سل پر پسی ہوئ چٹنی اس کے ساتھ رکھی جاتی تھی۔

پکوڑے افطار دستر خوان کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔
پکوڑے افطار دستر خوان کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔

اسی طرح لونگ چڑے بھی بیسن کے پیسٹ سے بنائے جاتے تھے۔ لیکن اس میں صرف نمک اور سرخ مرچ ڈالی جاتی تھی۔ پیاز کا بالکل استعمال نہیں ہوتا تھا۔ کڑاہی میں انہیں تلنے بعد نکال کر پانی میں ڈال دیا جاتا تھا جہاں وہ کچھ دیر پڑے رہنے کے بعد نرم ہو جاتے تھے۔ انہیں پھر چٹنی کے ساتھ ملا کر کھایا جاتا تھا۔

دہی بڑے بھی بیسن یا پھر مونگ یا ماش کی دال سے اسی ترکیب سے بنائے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ دن کے آخری حصے میں جب کہ روزہ اختتام کے قریب ہوتا، ان چیزوں کی خوشبو تسلی کا سبب بنتی کہ "نہ گھبرا اے دل کہ ان چیزوں کے کھانے کا وقت قریب ہے۔"

جیسا کہ آغاز میں کہا کہ رمضان میں ہر دور میں ہی کھانے پینے کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اب بھی پکوڑے بنتے ہیں لیکن اب انہیں سل کے بجائے گرائینڈر میں پسی ہوئی چٹنی یا زیادہ تر کیچ اپ کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ اب منگوچھیوں کے سالن کے بجائے میز پر 'بفلو ونگز' ہوتے ہیں۔ تلے ہوئے آلو کے قتلوں کی جگہ فرینچ فرائیز نے لے لی ہے۔ بیسن سے بنے ہوئے ایک سالن پٹور کی جگہ (جو اس زمانے میں ایک مقبول سالن ہوتا تھا) اسپیگیڈی یا لزانیا ہوتے ہیں اور شربتِ صندل یا روح افزا کی جگہ جوس یا سوڈے نے لے لی ہے۔

اب دیکھیے، آئندہ اور کیا کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔ فی الحال ہم تو چلے افطار کرنے۔۔۔

XS
SM
MD
LG