رسائی کے لنکس

امریکہ اور بھارت کے ساتھ تعلقات؛ پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی کیسی تھی؟


پاکستان کے سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کے نو سالہ دورِ اقتدار میں عالمی منظر نامے میں کئی اہم تبدیلیاں رُونما ہوئیَں۔ امریکہ میں نائن الیون حملے اور پاک بھارت تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کے دوران پرویز مشرف نے کئی ایسے فیصلے کیے جن کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔

پرویز مشرف نے بطور آرمی چیف بھارت کے خلاف جارحانہ حکمتِ عملی اپنائی اور بعض مبصرین کے مطابق گارگل جیسے محاذ کھولے لیکن ان کے دور میں پاکستان اور بھارت کشمیر جیسے تنازعے پر امن معاہدے کے قریب بھی پہنچے۔

جنرل مشرف کے دور میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان فرنٹ لائن اتحادی بن گیا اور مغرب اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بھی نئی بلندیوں تک پہنچایا۔

سابق سیکریٹری خارجہ شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ پرویز مشرف مہم جو مزاج رکھتے تھے اور اسی بنا پر انہوں نے خارجہ محاذ پر بھی بہت سے غیر معمولی فیصلے کیے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شمشاد احمد خان کا کہنا تھا کہ پرویز مشرف کی خارجہ پالیسی ایسی تھی کہ اس نے بھارت کے ساتھ کارگل پر جنگ چھیڑنے کے باوجود بھارت کو مذاکرات پر آمادہ کیا۔

مشرف دور میں پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے شمشاد احمد کہتے ہیں کہ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات غیر معمولی تھے۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کی خارجہ سطح پر پالیسیاں کامیاب رہیں البتہ انہیں ناکامی داخلی سیاست میں ہوئی جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عوام کی بہبود کے سات نکاتی ایجنڈے کو چھوڑ کر سیاسی معاملات میں زیادہ ملوث ہو گئے تھے۔

کارگل جنگ کے بعد واجپائی سے مصافحہ

کارگل جنگ چھیڑنے کا الزام بھی پرویز مشرف پر عائد کیا جاتا ہے لیکن 2002 میں نیپال میں ہونے والی جنوبی ایشیائی ملکوں کی تنظیم سارک سربراہ کانفرنس میں پرویز مشرف نے ہی خود آگے بڑھ کر اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ہاتھ ملایا اور انہیں مذاکرات کی دعوت بھی دی۔

شمشاد احمد کے بقول پرویز مشرف نے واچپائی سے صرف ہاتھ نہیں ملایا بلکہ ان کے گھٹنوں کو بھی ہاتھ لگایا جو کہ سفارتی طور پر مناسب بات خیال نہیں کی جاتی ہے۔

لیکن وہ کہتے ہیں کہ مشرف نے جو انداز اپنایا اس کے نتیجے میں وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو اس حد تک معمول پر لے آئے کہ بھارت کے ساتھ سمٹ لیول پر امن کی کوششیں ہوئیں تاہم ان کے بقول امن کا یہ عمل منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا۔

جولائی 2001 میں پرویز مشرف نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے ساتھ آگرہ میں مذاکرات ہوئے جس میں دونوں ملکوں نے اپنے ماضی کو دفن کرکے مسائل کے حل کے لیے کوششیں جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔

جموں و کشمیر پر جامع مذاکرات کا آغاز

واجپائی کے ساتھ ہاتھ ملانے کے بعد بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری تو آئی لیکن پرویز مشرف کا ابتدائی دورۂ نئی دہلی کامیاب نہ رہا۔ تاہم پس پردہ رابطے جاری رہے جس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکراتی عمل کا آغاز ہوگیا تھا۔ انہی دنوں پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے ’آؤٹ آف دی باکس سولویشن ‘ کا بیان بھی دیا۔

کشمیر پر چھ دہائیوں بعد سنجیدہ مذاکرات

پرویز مشرف کے دور میں امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہنے والی ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ مشرف دور میں واجپائی حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات اس وقت تک دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے سب سے سنجیدہ مذاکرات تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات میں امریکہ نے بھی پسِ پردہ کردار ادا کیا اور بظاہر ایسا لگنے لگا کہ دونوں ملک کسی حل کے قریب پہنچ سکتے تھے۔

ملیحہ لودھی کے بقول پاکستان کے اندرونی حالات کی وجہ سے کشمیر کا معاملہ آگے نہ بڑھ سکا اور بعدازاں اس وقت کے چیف جسٹس افتحار محمد چوہدری کی معزولی کے معاملے نے پرویز مشرف کی اقتدار پر گرفت کو کمزور کر دیا۔

شمشاد احمد خان نے کہا کہ پرویز مشرف کا کشمیر کے غیر معمولی حل کا فارمولا کشمیر کی موجودہ صورتِ حال سے زیادہ مختلف نہیں تھا اور وہ اس وجہ سے عملی صورت حاصل نہیں کرسکا کہ واجپائی اور منموہن سنگھ دونوں کا امتحان یہ تھا کہ وہ ایک فوجی حکمران کے ساتھ امن معاہدہ کیسے کریں۔

وہ کہتے ہیں کہ اسی بنا پر پرویز مشرف تو اعلانیہ طور پر بھارت کے ساتھ کشمیر فارمولے کی بات کرتے تھے لیکن منموہن سنگھ نے کبھی اس پر بات نہیں کی۔

ان کے بقول "مشرف نے مجھے کہا کہ کشمیر پر زیادہ بات نہ کریں، میں اس وقت اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر تھا۔"

تاہم وہ کہتے ہیں کہ انہوں نےکشمیر پر عوامی سطح پر گفتگو کو تو محدود کیا لیکن اقوام متحدہ میں لابنگ کو ماضی کی طرح جاری رکھا۔

مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکہ کا کردار

ملیحہ لودھی کے بقول پاکستان کی طرف سے کشمیر میں تعاون فراہم کرنے پر امریکہ کی طرف سے پاکستان سے پسِ پردہ مذکرات میں یہ کہا جاتا رہا کہ امریکہ کس طرح پاکستان کی مدد کر سکتا ہے۔

ان کے بقول صدر جنرل پرویز مشرف امریکہ پر زور دیتے رہے کہ آپ کشمیر پر ہماری مدد کر کے بھارت کو اس بات پر آمادہ کریں کہ کشمیر کا کوئی حل نکلے۔

یاد رہے کہ دسمبر 2001 میں بھارت کی پارلیمان پر ہونے والے حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات نہایت کشیدہ ہو گئے جب بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ شدت پسند کالعدم گروپ لشکرِ طیبہ اور جیشِ محمد ان حملوں میں ملوث ہیں۔

بھارت نے پاکستان سے ان حملوں میں مبینہ طور پر ملوث افراد کو بھارت کے حوالے کرنے کا بھی مطالبہ کرتے ہوئے اپنی فوجیں پاکستان سرحد کے قریب تعینات کر دی تھیں اور جنوبی ایشیا کے د و جوہری ممالک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔

لیکن مشرف حکومت کی طرف سے مبینہ عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے بعد پاک، بھارت تناؤ میں کمی آئی اور واجپائی حکومت پاکستان کے ساتھ بات چیت پر تیار ہو گئی۔

ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی ختم کرنے کے لیے امریکہ نے نہ صرف پس پردہ کردار ادا کیا بلکہ امریکہ کی ہی کوششوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت شروع ہوئی تھی۔

شمشاد احمد خان کے بقول پاکستان اور بھارت کے درمیان 1999 میں ہونے والا اعلانِ لاہور دونوں ملکوں کے سفارت کاروں نے تحریر کیا تھا جس میں طے پایا تھا کہ کشمیر کا ایسا حل نکالا جائے گا جو کہ موجودہ حالت سے مختلف ہوگا اور کشمیروں کی رضامندی اور دونوں ملکوں کے مفادات کے منافی نہیں ہوگا۔

یاد رہے کہ فروری 1999 میں پاکستان کے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے بھارتی وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی کو لاہور مدعو کیا۔ اس دورے کے دوران دونوں ملکوں نے مشترکہ طور پر لاہور اعلامیہ جاری کیا جس میں دہشت گردی کی مذمت کی گئی اور کشمیر سمیت دوسرے تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

اعلانِ لاہور میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد دونوں ملکوں پر یہ ذمے داری بڑھ گئی ہے کہ وہ تنازعات سے بچیں اور اعتماد سازی کے لیے اقدامات کریں۔

تاہم شمشاد احمد کہتے ہیں کہ اعلانِ لاہور کے چند ماہ بعد ہی مئی میں کارگل جنگ شروع ہو گئی جس کی وجہ سے تمام معاملہ ختم ہوگیا۔

کارگل میں پرویز مشرف کا کردار

سن 1999 میں پاکستانی فوج نے کارگل کی برفانی چوٹیوں پر قبضہ کرلیا جس کے نتیجے میں خطہ ایک بار پھر کشیدگی کی لپیٹ میں چلا گیا۔

اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کی مداخلت پر یہ محدود جنگ اختتام کو تو پہنچ گئی لیکن اس کے چند ماہ بعد ہی فوجی سربراہ پرویز مشرف نے نواز شریف کی منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں ایک اور فوجی راج آگیا۔

شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ مشرف مہم جو مزاج کے انسان تھے اور اسی بنا پر انہوں نے کارگل کا اقدام اٹھایا۔

انہوں نے کہا کہ برفانی چوٹیوں پر قبضے کے بعد پرویز مشرف نے کہا تھا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کارگل سے نہیں نکال سکتی اور حاصل شدہ علاقے کو چھوڑنا سیاسی طور پر ہتھیار ڈالنے کے مترادف ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں کون سا وزیر اعظم کہے گا کہ اپنے واپس حاصل کردہ علاقے کو دشمن کو دے دیا جائے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ پھر امریکی دباؤ پر پاکستان کو اس سے دست بردار ہونا پڑا۔

شمشاد احمد نے بتایا کہ پرویز مشرف کے بقول انہوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کیل میں نواز شریف کو کارگل آپریشن کے بارے میں بریفنگ دی تھی۔ تاہم شمشاد احمد کہتے ہیں کہ اس بریفنگ میں نہ وزیر خارجہ تھے اور نہ ہی وہ موجود تھے۔

پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس امریکہ کے ساتھ تعاون کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کو بھی ادارک تھا کہ اگر پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعاون نہ کیا تو بھارت خطے میں امریکہ کا ایک بڑا اتحادی بن کر سامنے آ سکتا ہے۔

ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے حملوں کے بعد پاکستان اور امریکہ کے درمیان ایک تناؤ کا ماحول تھا لیکن ان کے بقول جیسے ہی پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ماحول یکسر تبدیل ہو گیا۔

ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے ابتدائی برسوں میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات مثبت رہے۔

شمشاد احمد کہتے ہیں کہ روایتی طور پر امریکہ پاکستان کے تعلقات انہیں ادوار میں بہترین رہے ہیں جب اسلام آباد میں فوجی حکمران اور واشنگٹن میں ری پبلکنز کی حکومت رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا تو امریکہ میں بل کلنٹن کی حکومت تھی جس نے پاکستان کے فوجی حکمران سے فاصلہ اپنائے رکھا۔

شمشاد احمد نے بتایا کہ جب وہ اقوامِ متحدہ میں سفیر تھے تو ستمبر 2000 میں پرویز مشرف نیو یارک آئے تو میں نے انہیں ملاقاتوں کا شیڈول دیا تو انہوں نے دیکھ کر کہا کہ اس میں بل کلنٹن سے ملاقات شامل نہیں ہے۔

شمشاد احمد کہتے ہیں کہ میں نے پرویز مشرف سے کہا کہ کلنٹن آپ سے ملنا نہیں چاہتے لیکن اگر آپ کہتے ہیں تو میں ملاقات طے کرتا ہو کہ باقاعدہ ملاقات نہیں ہوگی بلکہ رسمی مصافحہ ہوگا۔

ان کے بقول بل کلنٹن پرویز مشرف سے عوامی سطح پر ملاقات نہیں کرنا چاہتے تھے اس وجہ سے مارچ 2000 میں جب وہ دورہ بھارت سے پہلے پاکستان آئے تو انہوں نے عوامی سطح پر پرویز مشرف سے ہاتھ نہیں ملایا تھا۔

انہوں نے کہا کہ پرویز مشرف کے اس دورے کے دوران ان کی بل کلنٹن سے رسمی ملاقات ہوئی تھی۔

نائن الیون کے بعد امریکہ کا ساتھ دینا غلطی تھی یا دانشمندانہ فیصلہ؟

اگرچہ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو امریکہ کی انسداد دہشت گردی میں شامل نہیں ہونا نہیں چاہیے تھا، لیکن کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ عالمی حالات کے تناظر میں یہ فیصلہ ناگزیر تھا۔

شمشاد احمد خان بھی سمجھتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ کی افغان جنگ میں ساتھ دینے سے پرویز مشرف پرائی جنگ کو اپنی سرزمین پر لے آئے جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔

وہ کہتے ہیں کہ نائن الیون کے بعد پرویز مشرف اور امریکی قیادت میں اس حد تک قربت آچکی تھی کہ بطور سفارت کار ہمیں بھی حیرت ہوا کرتی تھی۔

لیکن ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے لیے سلامتی کونسل کی قرار داد متقفہ طور پر منظور کی تھی اور اس کو نظر انداز کرنا پاکستا ن کے لیے ممکن نہیں تھا اور پاکستان کو بھی اپنے قومی مفادات کے مد ِنظر رکھتے ہوئے عالمی برادری کا ساتھ دینا پڑا۔

ملیحہ لودھی کہتی ہیں کہ صدر پرویز مشرف کی حکومت نے امریکہ کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کرنے سے پہلے اپنے دو قریبی دوست ممالک سعودی عرب اور چین سے بھی مشاورت کی تھی ان کےبقول چین کا بھی یہی مشورہ تھا کہ پاکستان کو عالمی اتفاقِ رائے کے تحت چلنا چاہیے۔

تاہم ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے طالبان حکومت کواس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے کر دیں۔

یاد رہے کہ اس وقت پاکستان کی طرف سے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کئی تجاویز پیش کی گئی تھیں لیکن یہ تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔

پرویز مشرف کی زندگی پرایک نظر
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:44 0:00

اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی پہلی کوشش!

جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ہی پاکستان نے پہلی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے امکانات تلاش کیے اور پاکستان کے وزیر ِخارجہ خورشید قصوری نے اسرائیلی ہم منصب سے استنبول میں ملاقات کی۔

اس وقت کے اسرائیلی وزیر خارجہ سیلون شالوم نے اسلام آباد کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اسرائیل نے پاکستان کے جوہری اثاثے ختم کرنے کے لیے بھارت کے ساتھ کبھی کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔

اسرائیل کے وزیر خارجہ کے ساتھ پاکستانی وزیر خارجہ کی ترکیہ میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں شمشاد احمد خان کہتے ہیں کہ اسرائیل سے بات کرنا مشرف کا ایک دلیرانہ اقدام تھا تاہم اس عمل کے نتیجے میں وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے نہیں جارہے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل سے پہلی مرتبہ باقاعدہ بات چیت سے پرویز مشرف نے پاکستان کے مفادات کا سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات نہ ہونے کا جو بھارت فائدہ اٹھا رہا ہے اسے کم کیا جاسکے۔

XS
SM
MD
LG