رسائی کے لنکس

بھارت کی سابق وزیرِ خارجہ سشما سوراج چل بسیں


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سابق وزیر خارجہ اور بی جے پی کی سینئر رہنما سشما سوراج کا منگل کی شب میں دل کا دورہ پڑنے سے نئی دہلی میں انتقال ہو گیا۔ وہ 67 سال کی تھیں۔ ان کے انتقال سے بھارتی سیاست میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔

سشما خطابت کی اپنی صلاحیت، انتظامی اہلیت اور عوام سے رابطہ کاری کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔

وہ عوامی طور پر آخری مرتبہ 30 مئی 2019 کو دوسری مدت کے لیے مودی حکومت کی حلف برداری کی تقریب میں نظر آئی تھیں۔

انہوں نے 2019 کا پارلیمانی الیکشن نہیں لڑا تھا۔

2014 میں نریندر مودی کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل انھیں بھی اس عہدے کا دعوے دار سمجھا جا رہا تھا۔ انہوں نے مودی کو وزیر اعظم کے منصب کا امیدوار بنائے جانے کی مخالفت کی تھی۔

لیکن جب پارلیمانی انتخاب کے بعد مودی کو وزیر اعظم بنا دیا گیا تو انہوں نے خود کو نمایاں کرنے سے گریز کرنا شروع کر دیا۔

وہ غیر ممالک میں پھنسے بھارتی باشندوں کی مدد کے لیے آگے آئیں اور انہوں نے مختلف ممالک سے ہندوستانی شہریوں کو وطن واپس لانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

انہیں لوگوں میں پاکستان سے ایک گونگی بہری لڑکی گیتا، ڈاکٹر عظمیٰ احمد اور حا مدانصاری کی واپسی بھی شامل ہے۔

سشما نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز 1970 میں بی جے پی کی طلبہ شاخ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد سے کیا تھا۔ وہ 1977 میں بی جے پی میں شامل ہوئیں اور 25 سال کی عمر میں ہریانہ حکومت میں کم عمر وزیر تعلیم کا منصب سنبھالا۔

وہ دہلی کی پہلی خاتون وزیر اعلی بھی رہی ہیں۔

انہیں 2007 میں اس وقت کی صدر جمہوریہ پرتبھا پاٹل کے ہاتھوں بہترین پارلیمنٹیرین کا ایوارڈ بھی ملا تھا۔

سشما کی زندگی کا سب سے مشکل الیکشن 1999 میں آیا جب وہ کانگریس صدر سونیا گاندھی کے مقابلے میں کرناٹک کے بیلاری سے میدان میں اتریں۔ اس الیکشن میں سونیا کی جیت ہوئی تھی۔

سشما سوراج ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوستانہ اور خیرسگالانہ تعلقات کی حامی رہی ہیں۔

انہوں نے آخری بار دسمبر 2015 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔

وہ اچھی اردو بولتی تھیں اور اپنی تقریروں میں خاص طور پر پارلیمنٹ کی تقریروں میں اشعار بھی استعمال کرتی تھیں۔

صدر، نائب صدر، وزیر اعظم سمیت تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG