رسائی کے لنکس

خیبر پختونخوا کے جنگلات کی آگ سے ایک ہی خاندان کے چار افراد ہلاک، سینکڑوں درخت خاکستر


فائل فوٹو
فائل فوٹو

خیبر پختونخوا کے مختلف پہاڑی علاقوں کے جنگلات میں رواں برس آگ لگنے کے واقعات تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔ جنگلات میں آتش زدگی سے ایک ہی خاندان کے چار افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ بڑی تعداد میں درخت خاکستر ہوگئے ہیں۔

مقامی افراد گزشتہ سال کے نسبت رواں برس جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہونے کی شکایت کر رہے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہےکہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟

حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے کہ ایسے واقعات کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے تا کہ یہ واضح ہو سکے کہ یہ آگ شرپسند عناصر کی طرف سے لگائی گئی ہے یا اس کی وجہ سے غیر معمولی گرم موسم ہے۔

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان مختلف پہاڑی علاقوں میں جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات کی فوری تحقیقات کا حکم اتوار کو جاری کر چکے ہیں۔

تازہ ترین واقعات

ہنگامی امداد کے ادارے ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال فیضی نے بتایا کہ پیر کو صوابی ، مہمند ، مالاکنڈ اور درگئی کے پہاڑی جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔ آگ کو بجھانے کے لیے فوری طور پر امدادی ٹیمیں روانہ کی گئیں۔

ریسکیو 1122 کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ڈاکٹر خطیر احمد نے جنگلات میں آتشزدگی کی تازہ ترین صورتِ حال پر ایک بیان میں کہا کہ مالاکنڈ ڈویثرن کے مختلف اضلاع میں لگی آگ پر قابو پالیا گیا ہے۔

انہوں نے سوات، بونیر، شانگلہ، لوئر دیر اور مالاکنڈ کے جنگلات میں آگ پر قابو پا نے کا دعوی کیا۔ جب کہ شانگلہ ہی کے ایک مقامی شخص زین العابدین نے اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ شانگلہ کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے ملحقہ پہاڑی پر آگ بھڑک رہی ہے جب کہ شانگلہ اور بونیر کے درمیان تحصیل چغرزئی کے پہاڑ پر بدستور آگ لگی ہوئی ہے۔

’تین دن میں 16 مقامات پر جنگل کی آگ پر قابو پایا گیا‘

ڈی جی ریسکیو 1122 ڈاکٹر خطیر کے مطابق کہ گزشتہ تین دنوں میں 16 مقامات پر جنگل کی آگ پر قابو پایا گیا جب کہ سوات کے محمد بیگ گاؤں میں اسلام پور کے پہاڑی سلسلے پر لگی آگ پر قابو پانے کے لیے آپریشن جاری ہے۔ اسی طرح صوابی، خیبر اور شانگلہ کے پہاڑی سلسلوں پر لگی آگ پر قابو پانے کے لیے آپریشن جاری ہیں۔

رواں ماہ جون کے پہلے ہفتے میں آگ لگنے کا سب ہلاکت خیز واقعہ سوات سے ملحقہ پسماندہ دور افتادہ ضلع شانگلہ میں پیش آیا، جہاں پر حکام کے بقول آتش زدگی سے ایک خاتون سمیت چار افراد ہلاک ہو ئے جن کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا ۔

حکام کے مطابق ضلع شانگلہ کے پہاڑی علاقوں میں لگنے والی آگ نے پہاڑی پر واقع بعض مکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ خشک موسم کی وجہ سے اس علاقے میں آگ کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا۔ شعلوں کی لپیٹ میں آکر ایک ہی گھر میں موجود چار افراد ہلاک ہوئے۔

مقامی میڈیا کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔

حکومت کو تنقید کا سامنا

شانگلہ سے صوبائی اسمبلی کے رکن فیصل زیب خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آگ بجھانے کا کام اس وقت شروع کیا گیا جب چار افراد ہلاک ہوئے۔ ان کےبقول جانی نقصان کے علاوہ کروڑوں روپے مالیت کا دیگر نقصان بھی ہوا۔

انہوں نے کہا کہ بعض اداروں کے حکام اور اہل کار تو جائے وقوع پر پہنچ گئے تھے مگر ا ن کے پاس آگ بجھانے کے آلات موجود نہیں تھے۔

سوات سے ملحقہ ضلع بونیر کے ایلم پہاڑی سلسلے میں آگ لگنے کا سلسلہ دو جون کو شروع ہوا تھا۔ اس دوران ایک درجن سے زائد مقامات پر آگ لگی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق آگ لگنے کے واقعات میں کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا ہے البتہ لاکھوں روپے مالیت کے مویشی ہلاک ہوئے جب کہ گھاس اور چارہ راکھ کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئے۔

ضلع بونیر کے سابق رکن قومی اسمبلی استقبال خان نے آتش زدگی کے ان واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

کئی مقامات پر آگ بجھانے کا کام جاری

سوات، بونیر اور شانگلہ کے علاوہ لوئر دیر کے پہاڑوں کے جنگلات میں بھی آگ لگی ہوئی ہے جسے بجھانے کے لیے انتظامیہ،مقامی افراد اور فوج کے اہل کار مصروف ہیں۔

ضلع مالاکنڈ کے سب سے بڑے قصبے بٹ خیلہ میں باٹاکے پہاڑی سلسلے میں لگنے والی آگ پر دو روز گزرنے کے بعد بھی پیر تک قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

سرکاری بیان کے مطابق ریسکیو اہل کار اور مقامی رضاکار آگ بجھانے میں مصروف ہیں جب کہ متاثرہ علاقے میں لوگ گھروں کو خالی کرکے محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ نے بھی ایک بیان میں صوبائی حکومت سے جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے کے لیے ٹھوس اقدامات کا مطالبہ کیا ہے

بیان میں انہوں نے کہا کہ جنگلات سے نہ صرف خیبر پختونخوا کا قدرتی حسن وابستہ ہے بلکہ اس کا سیاحت کے فروغ میں اہم کردار ہے۔

موسم کی صورت حال

دوسری جانب محکمۂ موسمیات نے خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سمیت صوبے کے زیادہ تر علاقوں میں موسم شدید گرم رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

بیان کے مطابق صوبے کے میدانی علاقے گرمی کی شدید لہر کے زیرِ اثر رہیں گے۔

محکمۂ موسمیات نے صوبے کے بیشتر علاقوں میں نو جون تک گرمی کی لہر برقرار رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔

XS
SM
MD
LG