رسائی کے لنکس

پیرس فائرنگ میں ہلاک پولیس اہلکار مسلمان تھا، نئی بحث


آزادی اظہار کے فرانسیسی قانون کی حفاظت کرتے ہوئے، احمد کی ہلاکت سانحہ پیرس کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے

پچھلے دنوں، پیرس میں ایک جریدے کے دفتر پر فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 12 افراد میں، دو پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ اور، ان میں احمد نامی پولیس اہلکار کے مسلمان ہونے کی خبر نے مغربی ذرائع ابلاغ میں ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔
فرانسیسی پولیس کے ترجمان نے ’نیو یارک ٹائمز‘ کو بتایا کہ احمد کے والدین شمالی افریقہ سے ہجرت کرکے فرانس آئے تھے۔ لیکن، وہ یہ نہیں جانتے کہ آیا احمد اب بھی اسلام کے پیروکار تھے۔ لیکن، اے بی سی نیوز کے مطابق، فرانسیسی اخبارات کی اس خبر نے سوشل میڈیا پر خاصی توجہ حاصل کر لی ہے۔

ادھر، سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ احمد نے اس جریدے کی حفاظت کرتے ہوئے، اپنی جان کا نظرانہ پیش کیا، جس نے ان کے مذہب کی توہین کی؛ تو کسی نے کہا کہ وہ دوسرے کی رائے سے متفق نہ ہوں تو بھی وہ دوسروں کی آزادی اظہار کے لئے اپنی جان دے دینگے۔
’دی اٹلانٹک‘ نے لکھا ہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر آزادی اظہار کے فرانسیسی قانون کی حفاظت کرتے ہوئے، احمد کی ہلاکت سانحہ پیرس کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
ماہرین کی رائے میں، فرانس میں مذہب یا زبان کے نام کی بنا پر شہریوں میں تفریق نہیں کی جاتی۔ یہاں تک کہ مردم شماری میں شہریوں کا مذہب تک نہیں پوچھا جاتا، جس کے مثبت پہلو بھی ہیں اور منفی بھی۔

فرانسیسی معاشرے میں سب کے یکساں ہونے پر اصرار کے منفی پہلو بھی ہیں۔ مثال کے طور پر، اسکارف اور برقعے پر پابندی نے تناوٴ اور تشدد کو جنم دیا ہے، جیسے کہ پیرس میں جریدے کے دفتر پر فائرنگ کا حالیہ واقعہ۔
فرانسیسی حکام کے مطابق، فائرنگ کے اس واقعے کے دو مشتبہ ملزمان کو پیرس کے شمال مشرقی علاقے میں ایک پولیس آپریشن کے دوران ہلاک کر دیا گیا ہے اور ان کے قبضے سے یرغمال بنائے گئے افراد کو آزاد کروالیا گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG