رسائی کے لنکس

ایک بار پھر وہی منظر نامہ؛ دھرنا، لاک ڈاؤن، کنٹینر سیاست؟


جے یو آئی (ف) کا 'آزادی مارچ' اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔
جے یو آئی (ف) کا 'آزادی مارچ' اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔

جمعیت علماء اسلام (ف) نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ناجائز قرار دے کر اس کے خلاف ستمبر کے آخر میں اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کیا تو سبھی کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ اب ایک بار پھر وہی سب کچھ مناظر دیکھنے کو ملیں گے جو پانچ سال قبل تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں اور احتجاج کے دوران ہوا تھا: لاک ڈاؤن، احتجاج، دھرنا، کنٹینرز لگا کر سڑکیں بند کرنا اور پھر پولیس اور مظاہرین کی جھڑپیں۔

اپنے دعوے کے عین مطابق، 27 اکتوبر کو جے یو آئی کے کارکنوں نے اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کیا۔ مولانا فضل الرحمان خود کراچی سے مارچ کی قیادت کرتے اسلام آباد کی جانب نکلے تو ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے کوریج کو نکل پڑے۔

اتوار کو کراچی کے مختلف علاقوں سے ٹولیوں کی شکل میں آنے والے قافلے سہراب گوٹھ پر جمع ہوئے۔ ان میں نظم و ضبط بھی تھا اور جذبہ اور حوصلہ بھی۔ کارکن اپنے ساتھ ضروری اشیاء لے کر نکلے تھے۔ کراچی سے جمعیت علماء اسلام کے مارچ میں شریک ہونے والوں میں نوجوان اور بزرگ سب ہی نظر آئے۔

دن بارہ بجے تک کنٹینر آچکا تھا جس پر اسٹیج سجایا گیا تھا، پیپلز پارٹی، اے این پی، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، مسلم لیگ ن، جمیعت علماء پاکستان اور دیگر جماعتوں کے رہنما کنٹینر کی چھت پر جبکہ ان کے کارکن پنڈال میں تھے، جن میں سب سے غالب تعداد بہرحال جے یو آئی (ف) کے کارکنوں کی نظر آئی۔

دیگر جماعتوں کی جانب سے مارچ کی حمایت اپنی جگہ، لیکن کراچی سے روانہ ہونے والے قافلوں میں مسلم لیگ ن کے گنے چنے کارکنوں کے علاوہ کوئی اور کم ہی نظر آئے۔

مارچ کے شرکا میں ہماری جتنے بھی کارکنوں سے بات ہوئی۔ ان میں سے بیشتر کو علم تھا کہ وہ کیا کرنے نکلے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ ان کے رہنما نے کیا پیغام دیا ہے۔ ان کا مقصد کیا ہے اور یہ احتجاج کیوں کرنے اسلام آباد جا رہے ہیں۔

اٹھائیس سالہ سلیمان خان نے ہمیں بتایا کہ ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے اور اس حکومت نے غریبوں کو کچھ دینے کے بجائے ان کا نوالہ بھی چھین رہی ہے۔ یہ حکومت ناکام ہے جو لوگوں کی معاشی مشکلات کو بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔ 45 سالہ نور محمد کا خیال اس سے بالکل مختلف تھا۔

'اسلام آباد میں ایک مہینہ بھی رک سکتے ہیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:59 0:00

اُن کا کہنا تھا کہ مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں کہ ملک میں مہنگائی بڑھی یا نہیں مگر اس کے خیال میں "یہ حکومت تو مغربی ممالک اور غیر مسلموں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ اسلام اور پاکستان کو بچانے کے لیے اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا ضروری ہے۔"

کراچی سے مارچ کا آغاز ہوا تو مولانا فضل الرحمٰن کنٹینر سے نکل کر ایک پجارو جیپ میں سوار ہوگئے۔ اور قافلہ روانہ ہو گیا۔ لیکن جمعیت علماء اسلام کے علاوہ اس مارچ میں جمعیت علماء پاکستان کے شاہ اویس نورانی کے علاوہ کسی جماعت کا کوئی رہنما جاتے نظر نہیں آیا۔

سندھ پولیس نے پنجاب کی سرحد تک جمعیت علماء اسلام کے سربراہ کو فول پروف سیکیورٹی فراہم کی۔ سندھ پولیس کے اسپیشل سیکیورٹی یونٹ کا دستہ مولانا کی گاڑی کے ساتھ ساتھ رہا۔ شام میں حیدرآباد میں ہٹڑی بائی پاس کے قریب مولانا نے اپنے کارکنوں اور وہاں استقبال کے لیے موجود لوگوں سے مختصر خطاب کیا جس کے بعد وہ یہاں سے انڈس ہائی وے کے راستے لاڑکانہ روانہ ہوگئے جبکہ مارچ کے شرکاء ٹولیوں کی صورت میں نیشنل ہائی وے ہی پر گامزن رہے۔

آزادی مارچ اپنی منزل کی جانب گامزن
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:09 0:00

ایک اہم بات جس کا ہم نے مشاہدہ کیا، وہ یہ تھی کہ سندھ کے چھوٹے چھوٹے شہروں میں جہاں عام طور پر لوگ جلدی سونے کے عادی ہوتے ہیں وہاں رات دیر تک لوگ سڑکوں پر مارچ کے شرکا کے استقبال کے لیے کہیں زیادہ اور کہیں کم تعداد میں موجود نظر آئے۔ ان استقبالی کیمپس میں سے بھی زیادہ تر جمعیت کے تھے جبکہ بعض پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی مقامی قیادت کی جانب سے بھی قائم کیے گئے تھے۔

مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ سندھ کے باسیوں نے کہیں مارچ کے شرکا کے لیے پانی کی بوتلوں کا انتظام کیا تھا، کہیں کھانا تقسیم کیا گیا اور کہیں پر ان کی خاطر تواضع چائے اور کھجوروں سے کی گئی۔

یوں مارچ کے شرکا قاضی احمد، مورو، نوشہرو فیروز، کنڈیارو، اور دیگر شہروں سے ہوتے ہوئے رات ڈھائی بجے سکھر پہنچے جہاں سکھر بائی پاس پر ایک بڑا پنڈال لگایا گیا تھا اور بیشتر شرکا نے رات وہیں گزاری۔

شمالی سندھ کا شہر سکھر ایک مرکزی مقام کی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں اور اس سے ملحقہ علاقوں میں جمعیت کا اثر و رسوخ پہلے سے کہیں بڑھ چکا ہے۔

ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے: مولانا فضل الرحمٰن
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:00 0:00

جمعیت علماء اسلام نے گزشتہ چند برسوں میں یہاں سیاسی اور مذہبی اثر و رسوخ تیزی سے بڑھایا ہے۔ یقیناً اس میں ان مدارس کا بنیادی کردار ہے جو دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ وہاں موجود زمیندار طبقہ اور دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کثیر تعداد میں جمعیت علماء اسلام کے حلقے میں شامل ہیں۔

جمعیت کو عوامی حمایت دلانے میں جے یو آئی کے مقتول رہنما مولانا خالد محمود سومرو اور پھر ان کے صاحبزادے مولانا راشد سومرو کی کاوشوں کا بہت بڑا کردار ہے۔

صوبے کے شمالی علاقوں میں رہنے والی مختلف برادریوں، حتیٰ کہ ہندو کمیونٹی کے لوگ بھی مولانا راشد سومرو کی شخصیت اور کردار سے کافی متاثر نظر آتے ہیں۔ لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر پیپلز پارٹی کی شکست کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ جمعیت نے پی پی پی کے بجائے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے امیدوار کی حمایت کی تھی۔

یہی وجہ ہے کہ سکھر میں جے یو آئی ایک بڑا قافلہ پنجاب کی جانب لے کر جانے میں کامیاب رہی۔ یہاں کراچی، حیدرآباد، نوشہرو فیروز، نواب شاہ، سے آنے والے شرکا کے ساتھ سکھر کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، جیکب آباد کے علاوہ بلوچستان کے اضلاع جعفرآباد، ڈیرہ مراد جمالی، نصیر آباد، روجھان جمالی، سبی اور دیگر علاقوں سے بھی لوگ یہاں آ کر 'آزادی مارچ' میں شامل ہوئے۔ اس کے نتیجے میں جمیعت قومی شاہراہ پر ایک بڑا جلسہ کرنے میں کامیاب رہی جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے۔

'آزادی مارچ' سکھر سے روانہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:16 0:00

مرکزی کنٹینر کی سیکیورٹی اور جلسوں میں نظم و ضبط کی ذمہ داری جمعیت کی نوجوان فورس 'انصار الاسلام' نے اٹھا رکھی تھی۔ خاکی شلوار قمیص پہنے، ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے یہ فورس کوئی خاص تربیت یافتہ تو نظر نہ آئی، لیکن اس کے باوجود انتظام سنبھالنے میں یہ کلیدی کردار ادا کرتے نظر آئے۔

مارچ کے شرکا اور قائدین کے ساتھ کراچی سے سکھر تک کے سفر کے دوران ہم نے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی کوشش کی کہ کیا اس مارچ میں محض مدارس کے طلبہ ہی ہیں جن کی جمعیت کو زبردست حمایت حاصل رہی ہے یا اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ بھی شامل ہیں؟

جمعیت علماء اسلام ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے، اور اس کا زیادہ تر ووٹ بینک بھی دینی رجحان رکھنے والے طبقے کا ہے۔ لیکن، اگر یہ کہا جائے کہ مارچ کے تمام تر شرکاء مدارس ہی کے طلباء ہیں تو مناسب نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ کراچی کے کئی دیوبند مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اہم مدارس نے، جن میں جامعہ بنوریہ عالمیہ بھی شامل ہے، اس مارچ سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کیا تھا۔

اس مارچ میں ہمیں شہری علاقوں سے آئے ہوئے لوگ تو خال خال ہی نظر آئے مگر زمیندار، کسان، سندھ اور پنجاب کے دیہات میں رہائش پزیر عام لوگوں کی بڑی تعداد ضرور نظر آئی۔ اور ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں جو موسم کی سختیوں، وسائل کی کمی اور دیگر مشکلات سے نمٹنے کے عادی ہیں۔

'آزادی مارچ' کراچی سے روانہ
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:19 0:00

لیکن، ہمیں پاکستان عوامی تحریک کے 2013 اور 2014 میں ہونے والے مارچ اور دھرنوں میں جس طرح خواتین شریک نظر آئیں وہ یہاں کہیں بھی نظر نہیں آئیں۔

مارچ کے شرکا ایسے ٹرکوں اور بسوں کی چھتوں پر سوار تھے جنہوں نے موسم کی سختیوں سے نمٹنے کے لیے ترپالیں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ مارچ میں کراچی سے لائی ہوئی ایک کرین کے ڈرائیور سے ہم نے اسے لانے کی وجہ دریافت کی تو امان اللہ نے بتایا کہ انہیں خدشہ ہے کہ اسلام آباد میں پولیس کنٹینرز کھڑے کر کے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرے گی جس سے نمٹنے کے لیے یہ کرین ساتھ لائی گئی ہے۔

مارچ میں شریک قیادت سے گفتگو سے اندازہ ہوا کہ جمعیت علماء اسلام کے 'آزادی مارچ' کا اسلام آباد کے پشاور موڑ پر جب پڑاؤ ہوگا تو سیاست کے میدان کے منجھے ہوئے کھلاڑی مولانا فضل الرحمٰن ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر اپنے لیے محفوظ راستہ ضرور نکال لیں گے، کیونکہ وہ واضح کر چکے ہیں کہ ان کا احتجاج عدلیہ کے احکامات کے برخلاف نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ اداروں سے لڑنے کے موڈ میں نظر آئے ہیں۔ فی الحال، ان کی نظر تحریک انصاف کی حکومت کو ٹارگٹ کرنا ہے۔

اگرچہ پارلیمنٹ میں جے یو آئی متحدہ مجلس عمل کا حصہ ہے، لیکن اس نے بھی اس مارچ میں غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ لیکن قومی اسمبلی میں چند نشستیں رکھنے کے باوجود بھی مولانا فضل الرحمن تحریک انصاف کے خلاف اپوزیشن کا وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو اس سے قبل 2013 سے 2018 تک تحریک انصاف بڑی اپوزیشن جماعت نہ ہونے کے باجود مسلم لیگ ن کے خلاف ادا کر رہی تھی۔

تاہم، بہت سے لوگ اس مارچ کو درحقیقت ن لیگ اور پیپلز پارٹی ہی کی جنگ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ مارچ کے ساتھ دو روز تک سفر میں اس بات کا اندازہ ضرور ہوگیا کہ مولانا کے سیاسی نظریات اور ان کی سیاسی حکمت عملی سے تو بھرپور اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن، ان کی اصل طاقت ان کے مخلص کارکن ہیں، جو اپنی قیادت سے نظریاتی طور پر جڑے ہوئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG