دونوں ملکوں کے راہنماؤں نے باہمی تجارت اور افغانستان میں سرمایہ کاری سے متعلق کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔
بھارت نے افغانستان کو ایک ارب ڈالر کی امداد دینے کے علاوہ، افغانستان میں ڈیم کی تعمیر اور افغان فورسز کے لیے ادویات فراہم کرنے کا بھی وعدہ کیا ہے۔
صدر غنی نے بھارتی سرمایہ کاروں اور کاروباری طبقے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ برسوں میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو 10 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔
صدر غنی نے پاکستان کا نام لیے بغیر کہا کہ اگر کوئی تیسرا ملک ہماری باہمی تجارت کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرے تو ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے الفاظ۔ میں ’’ہم اتنے پریشان کیوں ہیں کہ کوئی تیسرا ملک ہم دونوں ملکوں کو تجارت کرنے سے روک دے گا۔ ہم آئندہ برسوں میں باہمی تجارت کو مزید بڑھائیں گے۔‘‘
کچھ دن پہلے صدر غنی نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پاکستان، افغانستان اور بھارت کے تاجروں کو واہگہ کے راستے تجارت نہیں کرنے دے گا تو پھر افغانستان بھی پاکستان کو وسطی ایشیائی ملکوں تک رسائی نہیں دے گا۔ تاہم، پاکستان نے کہا ہے کہ اس نے واہگہ کے راستے بھارت سے تجارت پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔
اس کے علاوہ، صدر غنی نے اچھے اور برے طالبان پر بھی بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کی نظر میں اچھے دہشت گرد وہ ہیں جو اپنے ہمسائیوں کے ساتھ لڑائی میں مصروف ہیں اور برے وہ ہیں جو خود اس پر حملے کر رہے ہیں۔ اچھے جنگجوؤں کو ہمسایہ ممالک میں بھیجا جاتا ہے جب کہ برے دہشت گردوں کو ہلاک کیا جاتا ہے۔ لیکن، یہ کامیاب پالیسی نہیں ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف اس کا فوجی آپریشن بلا امتياز ہے اور وہ دہشت گردی سے نمٹنے میں افغانستان کی مدد بھی کرتا رہا ہے۔
صدر غنی نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد بھارت کی بجائے پہلے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
کابل یونیورسٹی میں سياسيات کے پروفیسر، نصر اللہ ستنکزئی نے ’وائس آف امریکہ‘ کی ڈیوہ سروس کو بتایا کہ افغانستان اور بھارت کے تعلقات انتہائی گہرے اور تاریخی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو خطے میں ایک طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کی بہت اہمیت ہے۔ یہ دونوں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بھی ایک صفحے پر ہیں اور دونوں کا دشمن ایک ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو افغانستان اور بھارت کے قریبی تعلقات پر تحفظات ضرور ہیں، لیکن ان کے اپنے الفاظ میں، ’’وہ بےجا ہیں‘‘۔
اس وقت، تجارت سے متعلق پاکستان اور افغانستان کے درمیان کئی معاہدے موجود ہیں اور افغانستان کا سب سے بڑا تجارتي شراکت دار پاکستان ہے۔ تاہم، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افغانستان، پاکستان پر اعتبار نہیں کرتا۔