رسائی کے لنکس

نیٹو سپلائی لائن کی بحالی پر کوئی دباؤ برداشت نہیں کیا جائے گا: گیلانی


وزیر اعظم گیلانی اور وزیر اعظم کیمرون
وزیر اعظم گیلانی اور وزیر اعظم کیمرون

’اگر ہمیں دباؤ میں آنا ہوتا تو پہلے آگئے ہوتے۔ جو بھی پارلیمنٹ کی سفارشات ہیں اُن کی روشنی میں، ہم، انشا اللہ، فیصلے کریں گے اور جو بھی فیصلہ کریں گے وہ قوم کے مفاد میں ہوگا‘

وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ نیٹو سپلائی کی بحالی کے لیے امریکہ سے پارلیمنٹ کی سفارشات کے تحت مذاکرات جاری ہیں، اور اِس بارے میں کسی قسم کا دباؤ بردادشت نہیں کیا جائے گا۔

پاکستان ہائی کمیشن میں اپنے دورہٴ برطانیہ پرنامہ نگاروں کو بریفنگ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے میڈیا میں پاکستان کو شکاگو کانفرنس میں شرکت کرنے کی دعوت نہ دینے کے نیٹو سےمنصوب بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو نے ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

اُن کے بقول، امریکہ کے ساتھ ہماری بات چیت جاری ہے اور جب مذاکرات حتمی ہوں گےتو اُس کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے، جب کہ ابھی حتمی نتیجہ نہیں آیا۔ اُنھوں نے کہا کہ، ’اگر ہمیں دباؤ میں آنا ہوتا تو پہلے آگئے ہوتے۔ جو بھی پارلیمنٹ کی سفارشات ہیں اُس کی روشنی میں، ہم، انشا اللہ، فیصلے کریں گے اور جو بھی فیصلہ کریں گے وہ قوم کے مفاد میں ہوگا‘۔

امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی جانب سے ایمن الظواہری کی پاکستان میں موجودگی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ سی آئی اے اور آئی ایس آئی میں عمدہ تعلقات ہیں اور اگر امریکہ کے پاس اِس بارے میں مصدقہ اطلاعات یا معلومات ہیں ، تو ظواہری کے خلاف مشترکہ کارروائی کی جاسکتی ہے۔

اِس سوال کے جواب میں کہ کیا حافظ سعید کے معاملے پر پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے،وزیر اعظم گیلانی کا کہنا تھا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ دہ عدالت کے سامنے ٹھوس شواہد پیش کریں جو ہی عدالت کو قائل کرسکیں گے، جب کہ حکومت کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔

توہینِ عدالت کیس کے تفصیلی فیصلے اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیر اعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبات کے بارے میں کیے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ، ’ جو میں نے کوئی کام کیا ہے وہ غیر اخلاقی یا مالی بدعنوانی کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ خالصتا ً آئین کی تشریح کا معاملہ ہے‘۔

اُن کے الفاظ میں، اگر تمام ادارے اپنا اپنا کام کریں گے، تو کسی قسم کا کوئی تصادم نہیں ہے۔ اگر اُن کو شوق ہے اور وہ ہنگامہ آرائی کی سیاست کرنا چاہتے ہیں۔’ اُن کے پاس دو طریقے ہیں۔ ایک آئینی طریقہ ہے کہ میرے خلاف عدم اعتماد (کی قرارداد) لے کر آئین۔ صدر صاحب کے خلاف مواخذے کی کارروائی لے کر آئیں ، اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دے کر باہر آجائیں اور اپنی تحریک کا اعلان کریں‘۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG