رسائی کے لنکس

کرونا بحران: گلگت بلتستان میں سیاحت متاثر ہونے سے غربت میں اضافہ


کرونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف گلگت بلتستان میں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گيا ہے بلکہ سياحوں کی جنت کہا جانے والا یہ سارا علاقہ ہی سنسنان ہوگیا ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف گلگت بلتستان میں کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گيا ہے بلکہ سياحوں کی جنت کہا جانے والا یہ سارا علاقہ ہی سنسنان ہوگیا ہے۔

پاکستان میں سیاحت کے لیے مقبول مقام گلگت بلتستان ان دنوں کرونا وائرس کی وجہ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ وہاں رواں برس نہ سیاح ہیں اور نہ ہی کاروباری سرگرمیاں۔ جس کی وجہ سیاحت کے شعبے سے وابستہ خاندان پریشانی میں مبتلا ہیں۔

وادی ہنزہ کے علاقے گلمت کی رہائشی شميم بانو گزشتہ 22 برس سے قالين بافی کی صنعت سے وابستہ ہيں۔ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے رواں برس اب تک کسی نے بھی ان کے سینٹر کا رُخ نہيں کيا ہے۔

آٹھ خواتين پر مشتمل 'کارگاہ مرکز' کا تمام تر دار و مدار سياحت سے جڑا ہوا ہے۔

شميم بانو کے مطابق گلگت بلتستان کی نماياں اشيا ميں بکرے کی اون کی رگ، جسے مقامی زبان ميں 'شرما' يا 'پلوس' کہتے ہيں، وہ سياحوں ميں کافی مقبول ہے لیکن اس سال سیاح نہ ہونے کی وجہ سے انہیں شديد مالی بحران کا خدشہ ہے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران شمالی علاقوں کی جانب غیر ملکی سیاحوں کا رخ زيادہ تھا اور ملک کے دوسرے علاقوں سے آنے والوں کی بھی خاصی بڑی تعداد یہاں آنے لگی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔

شميم بانو کے مطابق انہوں نے ايسی صورتِ حال پہلے کبھی نہيں ديکھی۔ کرونا وائرس کی وجہ سے سياحوں کی جنت کہا جانے والا سارا علاقہ سنسنان ہو گیا ہے۔

تینتالیس سالہ شميم بانو کے مطابق گلگت بلتستان میں جاپانی سياحوں کی آمد سے بہار کا موسم شروع ہو جاتا جس کے بعد ديگر ممالک کے لوگ بھی دھڑا دھڑ آنا شروع ہو جاتے ہيں اور يہ سلسلہ اکتوبر تک چلتا رہتا ہے۔ شہر سياحوں سے بھرے رہتے ہيں اور يوں ہر جگہ رونق لگی رہتی ہے۔

شمیم بانو
شمیم بانو

ان کے بقول قالين بافی علاقائی صنعت نہيں ہے۔ البتہ قالین کے ڈیزائن مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں جس کی انہوں ںے باقاعدہ تربیت بھی لی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہاتھ سے بنے ہوئے ايک قالين کی قيمت تين ہزار سے شروع ہر کر چاليس ہزار تک ہوتی ہے اور ان کے سینٹر میں کام کرنے والی خواتین سیزن میں تقریباً تین لاکھ روپے تک کما لیتی ہیں لیکن اس سیزن میں ایسا ممکن نہیں دکھائی دیتا۔

پاکستان ميں زيادہ تر سياح ملک کے شمالی علاقوں يا پھر صوبہ خيبر پختونخوا کے علاقوں کا رُخ کرتے ہيں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 15 لاکھ آبادی پر مشتمل گلگت بلتستان کی معيشت کا 65 سے 70 فی صد دار و مدار سياحت پر ہے۔

گلگت بلتستان ميں محکمۂ سياحت کے ڈائريکٹر اقبال حسين نے وائس آف امریکہ کو بتايا کہ گزشتہ برس 14 لاکھ جب کہ 2018 ميں 17 لاکھ افراد نے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کی سير کی تھی۔

ياد رہے کہ سياحتی امور سے متعلق معروف جريدے 'کونڈے ناسٹ ٹريولز' نے پاکستان کو 2020 ميں تعطيلات کے دوران سياحت کے لیے بہترين ممالک ميں اولين قرار ديا تھا۔ اس جريدے کو سياحت اور لائف اسٹائل کا مقبول ترين ميگزين ہونے کے سبب متعدد ايوارڈز سے بھی نوازا گيا ہے۔

اقبال حسين کے مطابق رواں برس ريکارڈ تعداد ميں غير ملکی سياحوں کے پاکستان آنے کا امکان تھا ليکن کرونا وائرس کی وجہ سے سياحت سے متعلق تمام کاروبار بيٹھ گئے ہيں۔

محکمۂ سياحت کے ڈائريکٹر کے مطابق گلگت بلتستان ميں جو بھی سياح آتے ہيں وہ کم سے کم ايک ہفتہ ضرور قیام کرتے ہيں۔ اس دوران غير ملکی سياح تقريباً پچاس ہزار جب کہ مقامی سياح تيس ہزار روپے تک خرچ کرتے ہيں۔

عطا آباد جھیل۔ (فائل فوٹو)
عطا آباد جھیل۔ (فائل فوٹو)

ان کے مطابق موجودہ صورتِ حال ميں علاقے کے افراد کی روز مرہ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں جس کے باعث علاقے ميں غربت کے پھيلنے کا خدشہ ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ سے گلگت بلتستان کی نہ صرف صنعت بلکہ ٹرانسپورٹ، ٹور آپريٹرز، ہوٹل، گيسٹ ہاؤسز اور بازار بھی شديد متاثر ہوئے ہيں۔

اکرام محمد بيگ، گلگت بلتستان ٹور آپريٹر ايسوسی ايشن کے صدر ہيں۔ 60 سالہ اکرام محمد بيگ گزشتہ 35 برس سے شعبۂ سياحت سے وابستہ ہيں۔

انہوں نے بتايا کہ موجودہ حکومت نے غير ملکی سياحوں کے لیے ويزوں ميں کافی حد تک نرمی کی تھی جس کی وجہ سے کافی سياحوں نے ايڈوانس بکنگ کرائی تھی اور موسم بہار میں تمام ہوٹل غير ملکی سياحوں کے لیے بُک تھے ليکن کرونا وائرس نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔

اُن کے مطابق صرف سیاحوں کے نہ آنے سے سیاحت کی صنعت کو دس ملين ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔

اکرام محمد بيگ حکومت سے 'سافٹ لون' کی توقع رکھتے ہيں تاکہ علاقے ميں سياحت کی صنعت کو مکمل تباہی سے بچايا جا سکے۔

راجہ ناصر گلگت بلتستان ہوٹل ايسوسی ايشن کے صدر ہيں جن کا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان ميں چھوٹے بڑے تمام ہوٹل ملا کر ان کی تعداد 500 بنتی ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے علاقے کے تمام ہوٹلوں کا کاروبار بیٹھ گيا ہے۔

ان کے بقول رواں برس ایڈوانس بکنگ کرانے والے امريکی، کورين اور مليشيا کے سياحوں کے ساتھ ريٹ بہت اچھا طے پايا تھا ليکن غیر ملکی پروازوں پر پابندی کی وجہ سے سب کچھ ختم ہو گيا ہے۔

کرونا وائرس کی وجہ سے سیاحوں کی جنت کہلایا جانے والا علاقہ سنسان ہے۔ (فائل فوٹو)
کرونا وائرس کی وجہ سے سیاحوں کی جنت کہلایا جانے والا علاقہ سنسان ہے۔ (فائل فوٹو)

کرونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے ميں باقی ماندہ علاقوں کی طرح گلگت بلتستان کے مختلف حصوں ميں اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ ہے۔

راجہ ناصر حکومت کی جانب سے نافذ کردہ لاک ڈاؤن سے مطمئن نہيں ہيں۔ ان کے مطابق کچھ دنوں کے لیے علاقے کو بند کرنے اور کھولنے سے مطلوبہ نتائج برآمد نہيں ہو سکتے۔

گلگت بلتستان کے وزيرِ اعلیٰ حافظ حفيظ الرحمان کے مطابق اگرچہ علاقے کے بيشتر افراد کا روزگار سياحت سے جڑا ہوا ہے اور وزيرِ اعظم کی جانب سے بھی بار بار سياحت کے فروغ پر زور ديا جاتا ہے ليکن علاقے کے بہتر مستقبل کی خاطر وہ سياحت کا شعبہ نہيں کھول سکتے۔

وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ سياحت کے بند ہونے سے تقريباً 50 ہزار افراد براہِ راست متاثر ہیں ليکن حکومت يہ سمجھتی ہے کہ سياحت دوبارہ بحال ہو سکتی ہے ليکن انسانی جانوں سے کھيلنا دانش مندی کے زمرے ميں نہيں آتا۔

انہوں نے بتایا کہ اگر صحت کا نظام تباہ ہو گيا تو پھر تمام تر توانائياں اسی پر صرف کرنا ہوں گی۔ اگلے پانچ سال خراب نہ ہوں اس لیے حکومت کچھ عرصہ سختی کرے گی اور اس کے بعد سياحت کو مرحلہ وار کھولنے کی کوشش کرے گی۔

XS
SM
MD
LG