رسائی کے لنکس

جہاد کا اعلان کرنا صرف ریاست کا اختیار ہے: مفتیٔ اعظم الازہر


ڈاکٹر ابراہیم نے کہا کہ دہشت گردی کا باعث بننی والی انتہا پسندی اور کسی بھی مسلمان کی تکفیر کرنے کے اسلام میں ممانعت ہے۔

مصر کی معروف 'جامعۂ الازہر' کے مفتیٔ اعظم ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم نے کہا ہے کہ جہاد کا اعلان کرنے کا اختیار صرف ریاست کے پاس ہے جبکہ کسی بھی شخص کو دائرہ اسلام سےخارج کرنا عدالتوں کا کام ہے۔

ڈاکٹر ابراہیم نے حکومتِ پاکستان کی سرپرستی میں ملک کے مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علما اور مذہبی شخصیات کی طرف سے متفقہ طور پر دہشت گردی کے خلاف جاری ہونے والے فتوے کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کا باعث بننی والی انتہا پسندی اور کسی بھی مسلمان کی تکفیر کرنے کے اسلام میں ممانعت ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال جنوری میں 'پیغامِ پاکستان' کے عنوان سے دہشت گردی کے خلاف جاری کیے جانے والے ریاستی بیانیے پر سیکڑوں علما اور مذہبی دانشوروں نے دستخط کیے تھے جس میں پاکستان خودکش حملوں، شدت پسندی اور خونریزی کو 'فساد فی الارض' قرار دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ ریاست ایسے افراد کے خلاف کارروائی کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔

پاکستان کے مؤقر انگریزی روزنامہ 'ڈان' کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر ابراہیم نے اسلامی نظریاتی کونسل کے تحت "پیغامِ پاکستان اور دہشت گردی" کے موضوع پر اسلام آباد میں بدھ کو منعقد ہونے والی کانفرنس کے دوران کہا کہ داعش جیسے شدت پسند گروہوں نے اسلام کے پیغام کو چھوڑ دیا ہے اور وہ مسلمان نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے نشانہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ صرف مفتیٔ اعظم ہی مذہبی معاملات سے متعلق فتویٰ جاری کر سکتے ہیں اور یہ اختیار ان نیم خواندہ مذہبی افراد کو نہیں دیا جاسکتا جنہوں نے ان کے بقول چند قدیم کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔

ڈاکٹر ابراہیم نے مزید کہا کہ انتہا پسندی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے انفارمیشن کے جدید ذرائع کو استعمال میں لانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ اس انتہا پسند مذہبی سوچ کا بھی تدارک کرنا ہو گا جس کے حامل ریاستوں کی سرحدوں کو نہیں مانتے۔

ایک دینی تنظیم 'پاکستان علما کونسل' کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسے عناصر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے جو نوجوان نسل کو انتہا پسندی کی طرف سے راغب کرنے میں مصروف ہیں۔

جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طاہر اشرفی نے کہا، "ساری توجہ اس طرف مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو انتہا پسند اور دہشت گرد عناصر کے نظریات اور افکار سے بچا سکیں۔ اس طرف توجہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔"

انہون نے مزید کہا کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایسے متعدد افراد کو حراست میں لیا ہے جو مواصلات کے جدید ذرائع بشمول سوشل میڈیا کے ذریعے نوجوان افراد کو انتہا پسندی کی طرف راغب کرنے میں مصروف تھے۔

واضح رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران سیکڑوں نوجوان پاکستان اور دیگر ملکوں سے داعش کی حمایت اور اس کے خلاف لڑائی میں حصے لینے کے لیے مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں شام اور عراق گئے تاہم ان ملکوں میں داعش کے پسپا ہونے کے بعد یہ افراد اب دوبارہ اپنے اپنے ملک واپس آرہے ہیں۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ انتہا پسند سوچ کے حامل ان افراد کو منظم ہونے سے روکنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک چیلنج ہے۔

XS
SM
MD
LG