رسائی کے لنکس

بھارت: گیان واپی مسجد کی جگہ پر کیا کبھی مندر تھا، مورخین کیا کہتے ہیں؟


گیان واپی مسجد تنازع کئی روز سے بھارت میں موضوع بحث ہے۔
گیان واپی مسجد تنازع کئی روز سے بھارت میں موضوع بحث ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ نے بنارس کی گیان واپی مسجد تنازعے پر سماعت کے لیے ضلعی عدالت کو ہدایت کر دی ہے۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ کیس کی سماعت مکمل ہونے تک بغیر کسی رکاوٹ کے نمازیوں کو آنے دیا جائے۔

جمعے کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، سوریہ کانت اور پی ایس نرسمہا پر مشتمل بینچ نے کہا کہ ضلع جج مسلم فریق کی اس اپیل پر فیصلہ کریں گے کہ ہندو فریق کی درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ گیان واپی مسجد میں سروے کے سلسلے میں سول عدالت کے حکم میں کوئی مداخلت نہیں کرے گی۔

خیال رہے کہ ہندوؤں کا مؤقف ہے کہ بنارس کی گیان واپی مسجد مندر کی جگہ پر تعمیر کی گئی ہے، لہذٰا اسے گرا کر دوبارہ مندر تعمیر کرنے کی اجازت دی جائے۔ مسلمانوں کا یہ مؤقف ہے کہ یہاں کئی برسوں سے مسجد ہی ہے اور مندر کے کوئی آثار نہیں پائے گئے۔

مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے مسجد کے سروے کی مخالفت کی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ 1991 کے عبادت گاہ قانون کی موجودگی میں سروے غیر قانونی ہے۔

سماعت کے دوران عدالت نے سروے رپورٹ کے افشا ہونے پر اپنی برہمی کا اظہار کیا اورسوال کیا کہ چنیدہ تفصیلات کیسے لیک ہو گئیں۔ سروے رپورٹ صرف سول جج ہی کھول سکتے ہیں۔ اسے میڈیا میں لیک نہ کیا جائے۔

واضح رہے کہ سروے رپورٹ کی تفصیلات میڈیا میں لیک ہو گئی تھیں جن میں کہا گیا ہے کہ سروے کے دوران مسجد کے اندر اور باہر ہندو مذہب کی علامتیں پائی گئی ہیں۔


گیان واپی مسجد کے بارے میں مورخین کی آرا

ایک طرف گیان واپی مسجد کا تنازع پورے ملک میں موضوع گفتگو بنا ہوا ہے تو دوسری طرف مسجد کی تاریخی حیثیت پر بھی مباحثے ہو رہے ہیں۔

بعض مورخین کا کہنا ہے کہ وارانسی کے وشوناتھ مندر کو کئی بار توڑا گیا۔ ڈاکٹر موتی چندر اپنی کتاب ’کاشی کا اتہاس‘ یعنی وارانسی کی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ سب سے پہلے سلطان قطب الدین ایبک نے وشو ناتھ مندر کو منہدم کیا تھا۔ انہوں نے 1194 میں بنارس پر قبضہ کیا تھا۔ یہ مندر اس سے بہت پہلے وہاں تعمیر کیا گیا تھا۔

ایک دوسرے مورخ اوم پرکاش کیجری وال کا بھی یہی کہنا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب ’کاشی نگری ایک: روپ انیک‘ میں لکھا ہے کہ قطب الدین ایبک نے اسانی کی جنگ میں بنارس کے حکمراں جے چندر کو شکست دے کر اس پر قبضہ کیا تھا۔

ان مورخین کے مطابق راجہ ٹوڈر مل کی خواہش پر گوبردھن داس اور نرائن بھٹ نے کاشی وشوناتھ مندر کی تعمیر نو کی۔ لیکن مغل حکمراں اورنگزیب کے دور میں اسے پھر توڑا گیا اور اس کے ایک حصے پر گیان واپی مسجد کی تعمیر کی گئی۔

موتی چندر نے مستعد خان کے حوالے سے لکھا ہے کہ 1669 کو اورنگزیب کو علم ہوا کہ ان کے حکم کے مطابق بنارس کے وشوناتھ مندر کو منہدم کر دیا گیا ہے۔

متعدد مصنفین نے لکھا ہے کہ اورنگزیب کے بعد مغل حکومت زوال پذیر ہو گئی اور مراٹھوں کو طاقت حاصل ہو گئی۔ لہٰذا وشوناتھ مندر کی ایک بار پھر تعمیر نو کی گئی۔

اس سلسلے میں تاریخی کتابوں کے حوالے سے متعدد قلم کاروں نے لکھا ہے کہ وشوناتھ مندر کی تعمیر نو کا سہرا اندور کی رانی اہلیا بائی ہولکر کے سر جاتا ہے۔ وہ ایک مذہبی خاتون تھیں۔ انہوں نے گیان واپی مسجد کے علاقے کی زمین خریدی اور اودھ کے نواب سے مندر کی تعمیرِ نو کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے کے بعد 1777 میں اس کی تعمیر نو مکمل ہوئی۔


غیر ملکی مورخین بھی مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کی بات کہتے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں تقابل مذاہب اور ہندوستانی مطالعات کے شعبے میں استاد پروفیسر ڈیانا ایلاک کے مطابق وہ مندر کافی وسیع تھا اور اس میں آٹھ پویلین تھے۔ ان کے مطابق اورنگزیب نے مندر کے نصف حصے کو منہدم کرکے اس پر گیان واپی مسجد کی تعمیر کروائی تھی۔

مندر انہدام کی وجہ؟

عام طور پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اورنگزیب ایک متعصب مسلم حکمراں تھے اور اپنے مبینہ مذہبی تعصب کی وجہ سے ہی انہوں نے مندروں کو منہدم کروایا۔ لیکن کانگریس کے سینئر رہنما اور مصنف پٹابھی سیتارمیّا وشوناتھ مندر کے انہدام کی دوسری وجہ بتاتے ہیں۔

انہوں نے اپنی معروف کتاب ’فیدرز اینڈ اسٹونز‘ میں لکھا ہے کہ اورنگزیب اپنی حکومت کے عروج کے زمانے میں مغربی حکمرانوں کی مانند جب کہیں کا سفر کرتے تھے تو ان کے ساتھ بڑی تعداد میں ہندو مصاحب بھی ہوتے تھے۔

ایک بار ان کے ہندو مصاحبین بنارس کے وشوناتھ مندر میں درشن کرنے گئے۔ اس گروپ میں کچھ (گجرات) کی رانی بھی تھیں۔ جب وہ لوگ درشن کرکے باہر آئے تو معلوم ہوا کہ رانی لاپتا ہیں۔

انہوں نے مندر میں رانی کو تلاش کرنا شروع کیا اور بالآخر وہ مندر کے تہہ خانے میں خوفزدہ حالت میں پائی گئیں۔ ان کے تمام زیورات اور قیمتی اشیا لوٹ لی گئی تھیں۔

انہوں نے لکھا ہے کہ بعد میں ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ جو لوگ بھی درشن کرنے آتے ہیں ان کو وہاں کے مہنت یعنی پجاری کسی بہانے سے تہہ خانے میں لے جاتے ہیں اور انہیں لوٹ لیتے ہیں۔

ان کے مطابق جب اورنگزیب کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے کہا کہ جہاں ایسی لوٹ کھسوٹ ہوتی ہو وہ خدا کا گھر نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا انہوں نے اسے منہدم کرنے کا حکم دے دیا۔

بعض روایات کے مطابق بعد ازاں رانی کی خواہش پر وہاں ایک مسجد تعمیر کی گئی جسے گیان واپی مسجد کہا گیا۔ گیان واپی سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کا معنیٰ ہے علم کا کنواں۔


لیکن بہت سے لوگ اس واقعے پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ بیانیہ گھڑا گیا ہے۔

اوم پرکاش کیجری وال اپنی کتاب ’کاشی گرنتھ‘ میں لکھتے ہیں کہ اس وقت بنارس کے برہمن اورنگزیب کے مبینہ ظلم سے اس قدر خائف تھے کہ انہوں نے وشوناتھ مندر کی تعمیر نو میں حصہ نہیں لیا۔

'یہ ماضی کے حکمرانوں کا وتیرہ تھا'

دہلی کی امبیڈکر یونیورسٹی میں تاریخ کے استاد پروفیسر سلیل مشرا کا کہنا ہے کہ تاریخ کی کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ اورنگزیب کے دور حکومت میں وشوناتھ مندر کو منہدم کیا گیا تھا لیکن یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس کی تعمیر نو بھی ہوئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اُن کا کہنا تھا کہ ماضی میں جو بھی حکمراں آئے انہوں نے دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کو مسمار کیا اور اپنے مذہب کی عبادت گاہیں تعمیر کروائیں۔

اس کے علاوہ یہ بھی ہوتا تھا کہ مسمار شدہ عمارت کے ملبے سے ہی دوسری عبادت گاہ تعمیر کر دی جاتی تھی۔ صرف عبادت گاہوں میں ہی نہیں بلکہ مکانوں کی بھی تعمیر اسی طرح ہوتی تھی۔

مندر کے مہنت کا مؤقف

کاشی وشوناتھ مندر کے سابق مہنت راجیندر تیواری کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں کاشی وشوناتھ کوریڈور کی تعمیر میں جتنے مندر توڑے گئے اتنے شاید اورنگزیب نے بھی نہیں توڑے ہوں گے۔

انہوں نے ’دی وائر‘ کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کو انٹرویو یتے ہوئے کہا کہ پندرہویں صدی میں مغل حکمراں اکبر کے نورتنوں میں سے ایک راجہ ٹوڈر مل نے سرکاری خزانے سے پیسہ نکال کر کاشی وشوناتھ مندر کی تعمیر کروائی تھی اور مندر ان کے اجداد کے حوالے کیا گیا تھا۔

ان کے مطابق ان کے خاندان کے نام سے مندر کا پٹہ (لیز) ہے۔ ان کے مطابق اورنگزیب کے دور میں بنارس کے صوبیدار جے سنگھ نے اس مندر کو مسمار کرانے کا ٹھیکہ لیا تھا۔

مہنت راجیندر تیواری کہتے ہیں جب مندر توڑا گیا تھا تو شیو لنگ کو ان کے اجداد کے حوالے کیا گیا تھا۔ جہاں اس وقت وشوناتھ مندر ہے وہاں ان کے اجداد کا گھر تھا۔ چالیس سال تک شیو لنگ ان کے گھر میں رہا اور جب اہلیا بائی نے مندر کی تعمیر کروائی تو وہ شیو لنگ وہاں نصب کیا گیا۔ لہٰذا ان کے مطابق حوض سے ملنے والی جس چیز کو شیو لنگ کہا جا رہا ہے وہ غلط ہے۔

پرانا تنازع

عدالتوں کے ریکارڈ سے پتا چلتا ہے کہ اس معاملے میں پہلا تنازع 1936 میں پیدا ہوا تھا اور عدالت میں متعدد لوگوں نے گواہیاں دی تھیں۔

اس کے بعد 14 مئی 1937 کو بنارس کے ایک تاریخ داں پروفیسر پرماتما شرن نے برطانوی حکومت کی جانب سے ضلعی عدالت میں اپنے بیان میں اورنگزیب کے دور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ سولہویں صدی میں گیان واپی مسجد ایک مندر تھا۔

مسلمانوں کے وفاقی فورم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے 16 مئی کو جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ ضلعی عدالت نے 1937 میں دین محمد بنام اسٹیٹ آف سیکریٹری معاملے میں ثبوتوں کی بنیاد پر یہ فیصلہ دیا تھا کہ گیان واپی کا پورا احاطہ مسلم وقف کی ملکیت ہے۔ اس نے یہ بھی بتا دیا تھا کہ کتنا حصہ مندر کا ہے اور کتنا مسجد کا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG