رسائی کے لنکس

بھارت کے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے پر تنازع، معاملہ عدالت پہنچ گیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی کا معاملہ بڑا تنازع بنتا جا رہا ہے جہاں کانگریس کے سینئر رہنما راہول گاندھی سمیت متعدد سیاست دان اس پابندی کی مخالفت کر رہے ہیں، وہیں یہ معاملہ اب کرناٹک ہائی کورٹ بھی پہنچ گیا ہے۔

سب سے پہلے کرناٹک کے اوڈوپی میں واقع ایک کالج کی چھ مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اس کے بعد یہ معاملہ دیگر تعلیمی اداروں میں بھی پہنچ گیا۔

بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی کے سینئر رہنما اور رکنِ پارلیمنٹ راہول گاندھی نے مسلم طالبات کے حجاب اتار کر تعلیمی ادارے آنے کے کالج انتظامیہ کے حکم پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھار ت کی بیٹیوں کا مستقبل ان سے چھینا جا رہا ہے۔

انھوں نے ہفتے کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ طالبات کے حجاب کو ان کی تعلیم کے آڑے آنے دے کر ہم بھارت کی بیٹیوں کا مستقبل چھین رہے ہیں۔

ان کے بقول سرسوتی دیوی سب کو تعلیم دیتی ہیں، وہ کسی سے امتیاز نہیں کرتیں۔خیال رہے کہ ہندو عقیدے کے مطابق سرسوتی تعلیم کی دیوی ہیں۔

کانگریس کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے حجاب پر پابندی کی پالیسی کی مخالفت کی اور اسے غلط قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں سکھ ہیں، جو پگڑی پہنتے ہیں۔ عیسائی اپنی گردن میں صلیب لٹکاتے ہیں اور بہت سے ہندو عام طور پر پیشانی پر قشقہ یا تلک لگاتے ہیں۔ ان کے بقول بھارت میں یہ معمول کی بات ہے۔

انھوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ یہ بھارت کی طاقت ہے کہ ہر شخص اپنی پسند کا لباس پہننے میں آزاد ہے۔ اگر حجاب کی اجازت نہیں ہے تو پھر سکھوں کی پگڑی، عیسائیوں کی صلیب اور ہندوؤں کے تلک کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟

ان کا کہنا تھا کہ مذکورہ کالج زوال پر آمادہ ہے۔ طالبات کو اندر آنے دیں۔ انھیں پڑھنے دیں اور انھیں کیا پہننا ہے، اس کا فیصلہ انھیں کرنے دیں۔

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبد اللہ نے بھی اس معاملے پر حکومت پر شدید تنقید کی۔

دونوں رہنماؤں نے ویڈیو ٹوئٹ کی جس میں دیکھاجا سکتا ہے کہ اوڈوپی ضلع کے کندا پور میں واقع گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج کا عملہ باحجاب طالباب کو کالج میں داخل ہونے سے روکتا ہے اور ان کے لیے کالج کا گیٹ بند کر دیتا ہے۔

اس کالج میں 60 مسلم طالبات ہیں۔ جو حجاب میں کالج آتی رہی ہیں۔ وہ گیٹ کے باہر کئی گھنٹے تک عملہ سے گیٹ کھولنے کی درخواست کرتی رہیں لیکن گیٹ نہیں کھولا گیا۔

محبوبہ مفتی نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ حکومت ‘بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ لگاتی ہے البتہ مسلم لڑکیوں کو ان کے لباس کی وجہ سے تعلیم کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنا گاندھی کے بھارت کو گوڈسے کے بھارت میں تبدیل کرنے کی سمت میں ایک اور قدم ہے۔

عمر عبد اللہ نے اتر پردیش کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، بی جے پی کی سینئر رہنما اوما بھارتی اور بھوپال سے رکن پارلیمنٹ پرگیہ ٹھاکر کی تصاویر پوسٹ کرکے کہا کہ جب یہ عوامی نمائندے بھگوا لباس پہن سکتے ہیں، تو لڑکیاں بھی حجاب پہن سکتی ہیں۔ مسلمان دوئم درجے کے شہری نہیں ہیں۔

ریاست کے کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ سدھا رمیا نے مسلم طالبات کی حمایت کی اور کالجوں کی جانب سے حجاب پر پابندی کی مخالفت کی۔

خیال رہے کہ کندا پور کے پری یونیورسٹی کالج میں متعدد ہندو طلبہ بھگوا شال گلے میں لپیٹ کر آئے اور حجاب کی مخالفت کرنے لگے۔ جب کہ متعدد مسلم طلبہ نے حجاب کے حق میں آواز اٹھائی اور انتظامیہ کے اس قدم کی مخالفت کی۔

یہ معاملہ اب کرناٹک ہائی کورٹ میں پہنچ گیا ہے۔

ایک مسلم طالبہ نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرکے عدالت سے اپیل کی ہے کہ وہ حکم دے کہ حجاب پہننا بنیادی حق ہے اور اس کی گارنٹی بھارت کے دستور کی دفعہ 14 اور 25 میں دی گئی ہے۔

یہ درخواست تین وکلا شتابیش شیوانہ، ارنب اے بگلواڈی اور ابھیشیک جناردھن کے توسط سے داخل کی گئی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین ہر شہری کو اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ کی گارنٹی دیتا ہے اور ایسے معاملات میں ریاست اسی وقت مداخلت کر سکتی ہے جب وہ معاملہ نظم و نسق کا مسئلہ بن جائے۔

درخواست کے مطابق 28 دسمبر 2021 کو ان مسلم طالبات کو کالج میں داخل ہونے اور کلاس میں بیٹھنے سے روک دیا گیا۔

یہ معاملہ 3 فروری کو جسٹس کرشنا ایس دیکشت کے بینچ کے سامنے سماعت کے لیے آیا۔ لیکن ریاستی حکومت کے وکیل نے کہا کہ اس معاملے میں ریاست کے ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوں گے۔ لہٰذا عدالت اب ا س معاملے پر 8 فروری کو سماعت کرے گی۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور معروف قانون داں اے رحمان کا کہنا ہے کہ کرناٹک کے کالجوں کی جانب سے طالبات کے حجاب پر پابندی عائد کرنا دستور کی دفعہ 25 کی صریح خلاف ورزی ہے۔

بھارت: مسلم رہنما شہریت قانون میں تبدیلی کے لیے پُر امید
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:50 0:00

انھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ آئین نے جو مذہبی آزادی دی ہے اس میں مذہب سے متعلق تمام باتیں شامل ہیں۔ ہر شخص کو اپنے مذہب کی پیروی، ترویج اور تبلیغ کی اجازت ہے اور اس اجازت پر اسی وقت قدغن لگ سکتی ہے جب اس سے صحت عامہ، اخلاق عامہ یا امن عامہ کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔

ان کے مطابق اگر کوئی طالبہ تعلیمی ادارے میں باحجاب آتی ہے تو اس سے تعلیمی ادارے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔

انھوں نے کہا کہ کالج انتظامیہ کی جانب سے حجاب پر پابندی لگانا ملکی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے اور ان تعلیمی اداروں کے ضابطے کی بھی خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ مذکورہ تعلیمی اداروں کے ضابطے میں درج ہے کہ اگر اسکارف دوپٹے کی شکل میں ہو تو اس کو پہنا جا سکتا ہے۔

ان کے مطابق اگر حکومت کی جانب سے کسی تعلیمی ادارے کو کوئی ایسا حکم دیا جاتا ہے جو اس کے آئین کے خلاف ہو تو انتظامیہ کی جانب سے اس کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ یہ حکم ادارے کے ضابطوں کے خلاف ہے۔

اے رحمان نے اس معاملے کو عدالت میں لے جانے کے سلسلے میں کہا کہ سپریم کورٹ ہمارے آئین کا پاسدار ہے۔ لیکن عام سول عدالتیں ایسے حساس معاملات پر کوئی فیصلہ سنانے سے گریز کرتی ہیں۔ وہ ایسے معاملات پر خاموش رہتی ہیں جو سیاسی نوعیت اختیار کر لیں۔

ان کے بقول اس بارے میں اگر سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی جائے تو وہ آئین کی روشنی میں فیصلہ سنا سکتی ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ نے متعدد بار اپنے فیصلوں میں بنیادی حقوق کے تحفظ پر زور دیا ہے۔

ادھر اس معاملہ نے ایک بڑے تنازعے کی شکل اختیار کرلینے کے بعد کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسواجیت بومئی نے جمعہ کو پرائمری اور سیکنڈری تعلیم کے وزیر بی سی ناگیش اور حکومت کے اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ اجلاس کیا۔

اجلاس کے بعد ناگیش نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے ہدایت کی ہے کہ اس معاملے میں حکومت کے مؤقف سے عدالت کو باخبر کیا جائے۔ قانونی محکمہ اس بارے میں عدالت میں اپنا مؤقف پیش کرے گا۔ جب کہ ریاست کے وزیر داخلہ اے گیانیندر نے کہا کہ طلبہ کو کالجوں میں نہ تو حجاب پہننا چاہیے اور نہ ہی بھگوا شال اوڑھنی چاہیے۔

انھوں نے پولیس کو ان مذہبی تنظیموں پر نظر رکھنے کی ہدایت کی جو ان کے بقول اس معاملے میں ملک کے اتحاد کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو اپنے مذہب کی پابندی کرنے کے لیے اسکول اور کالج میں نہیں آنا چاہیے۔ بلکہ تمام طلبہ کو اتحاد و اتفاق کے ساتھ تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔

رپورٹس کے مطابق کنداپور کالج نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ طالبات کو کیمپس کے اندر اسکارف میں آنے کی اجازت ہے البتہ اسکارف کا رنگ دوپٹے کے رنگ سے مشابہ ہو۔ طلبہ کو کوئی اور لباس پہننے کی اجازت نہیں ہے۔

کالج کے پرنسپل نرائن شیٹی کے مطابق وہ کیمپس میں ہم آہنگی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے بقول وہ ایک سرکاری ملازم ہیں۔ وہ حکومت کی ہدایات کی پابندی کریں گے۔

انھوں نے طالبات سے کہا کہ وہ مجبور ہیں، ان کو اوپر سے حکم ملا ہے۔ لہٰذا اگر وہ پڑھنا چاہتی ہیں تو حجاب اتار کر آئیں۔

رپورٹس کے مطابق جب طالبات نے مذکورہ حکم کی نقل دکھانے کی درخواست کی تو پرنسپل نے اس پر سخت اعتراض کیا۔

ادھر حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما یشپال سوورنا نے جو کہ اوڈوپی کالج کی انتظامیہ کمیٹی کے نائب صدر ہیں، میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ہندو تنظیموں کی مدد سے ہم پانچ منٹ میں اس معاملے کو ختم کر سکتے ہیں۔ کالج میں 900 طلبہ ہیں۔ مگر یہ چھ طالبات پاپولر فرنٹ آف انڈیا (پی ایف آئی) کی حمایت سے کیمپس کا ماحول خراب کر رہی ہیں۔ ہم اس بارے میں فیصلہ کریں گے کہ ہندو تنظیموں کی مدد سے اسے کیسے ختم کیا جائے۔

بی جے پی کی کرناٹک شاخ نے راہول گاندھی کے بیان پر ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے ان پر تعلیم کو فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ انھوں نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ ملک کے لیے خطرناک ہیں۔

کرناٹک بی جے پی نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ اگر تعلیم یافتہ ہونے کے لیے حجاب اتنا ہی ضروری ہے تو پھر راہول گاندھی کانگریس کی حکومت والی ریاستوں میں اسے لازمی کیوں نہیں قرار دے دیتے۔

ریاستی بی جے پی کے صدر نلن کتیل نے ایک بیان میں کہا کہ ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ یہاں حجاب یا کسی اور تنازعے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسکول اور کالج کے ضابطوں کی پابندی کرنی ہوگی۔ مذہبی تنازع ٹھیک نہیں ہے۔ ان کی حکومت سخت ایکشن لے گی۔ طلبہ کو ضابطوں کی پابندی کرنی ہو گی۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG