رسائی کے لنکس

آرٹیکل 63 اے: ’سسٹم کمزور ہو تو آئین بچانے کے لیے سپریم کورٹ کو آنا پڑتا ہے‘


سپریم کورٹ۔ فائل فوٹو
سپریم کورٹ۔ فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق حکومتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ منحرف رُکن کو شفاف ٹرائل اور الزامات کی تصدیق کے بغیر تاحیات نااہل کیسے قرار دیں۔

بدھ کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں ریفرنس کی سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ حکومت چاہتی ہے کہ سپریم کورٹ ریفرنس کی بنیاد پر آئین کو دوبارہ لکھے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ صدرِ مملکت نے ایسے وقت میں ریفرنس کیوں سپریم کورٹ بھیجا جب وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک جمع ہوئی۔ صدر کی جانب سے ایسے وقت میں ریفرنس دائر کرنا سوالیہ نشان ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہناتھا کہ منحرف رکن کے خلاف کارروائی کے لیے الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کے فورمز موجود ہیں، سوال یہ ہے کہ نااہلی کی میعاد کیا ہو گی؟

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ کر رہا ہے جس میں جسٹس منیب اختر،جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

تحریکِ عدم اعتماد: کیا آئین کا آرٹیکل 63 اے حکومت کو بچا سکتا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:13 0:00


سندھ ہاؤس واقعہ کی رپورٹ پیش

سماعت کے آغاز میں بینچ کے سامنے سندھ ہاؤس واقعہ ملزمان سے متعلق اسلام آباد پولیس کی رپورٹ پیش کی گئی، ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ توصیف خان نامی کارکن کو دوبارہ گرفتار کر لیا ہے۔

پولیس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ ہاؤس پر حملے میں ملوث تحریکِ انصاف کے اراکینِ قومی اسمبلی کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ جن لوگوں نے اس حملے پر اکسایا ان کے نام مقدمہ میں شامل نہیں ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس قانونی فورم موجود ہے وہاں رجوع کریں۔ایسا ممکن نہیں کہ ہم سندھ ہاؤس واقعہ کو اس طرح ہی جانے دیں۔

عدالت نے پیر کو دوبارہ سندھ ہاؤس واقعہ پر پیش رفت رپورٹ طلب کر لی۔

عدالت صدارتی ریفرنس سننے کی قانونی طور پر پابند نہیں: مخدوم علی خان

ریفرنس پر سماعت کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وکیل مخدوم علی خان نے دوبارہ دلائل کا آغاز کیا۔ لیکن اس سے پہلے جسٹس جمال خان نے سوال کیا کہ کیا صدر اسمبلی کارروائی کے بارے میں رائے لے سکتا ہے؟ کیا عدالتی رائے کی اسمبلی پابند ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اسپیکر کی ایڈوائس پر صدر نے یہ ریفرنس بھیجا ہے؟

ان سوالات پر مخدوم علی خان نے کہا کہ ان سوالات کے جواب اٹارنی جنرل ہی دے سکتے ہیں، میں ریفرنس کے قابلِ سماعت نہ ہونے پر اپنے دلائل دوں گا۔

انہوں نے کہا کہ عدالت صدارتی ریفرنس سننے کی قانونی طور پر پابند نہیں ہے۔ریفرنس صدر کی جانب سے آنے پر احترام میں سنا جاتا ہے۔

وکیل مسلم لیگ(ن) کا کہنا تھا کہ ریفرنس میں سوال قانونی نہیں سیاسی ہیں لہذا اسے واپس بھجوایا جائے۔ حکومت چاہتی ہے آرٹیکل 63 اے میں درج نتائج سے بڑھ کر ریلیف ملے۔ہر سوال کا جواب عدالت سے لینا مناسب نہیں ہوتا ۔بعض اوقات عدالت کے بجائے عوام سے اپیل کرنا زیادہ مناسب ہوتا ہے۔

'امانت اور خیانت جیسے الفاظ استعمال کر کے عدالت کو جذباتی کرنے کی کوشش کی گئی'

مخدوم علی خان نے کہا کہ امانت اور خیانت جیسے الفاظ استعمال کرکے عدالت کو جذباتی کرنے کی کوشش کی گئی۔ صدر نے عدالت سے پوچھا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کیسے روکی جاسکتی ہے۔ہارس ٹریڈنگ روکنے کے سوال کا جواب رائے نہیں بلکہ آئین سازی کے مترادف ہو گا۔ صدر نے ہارس ٹریڈنگ روکنے کے لیے کسی طریقۂ کار پر رائے نہیں مانگی۔

مخدوم علی خان کے بقول ریفرنس میں سینیٹ الیکشن میں خریدو فروخت کا حوالہ دیا گیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے کہ پارٹی سے انحراف غیر آئینی ہو گا۔آپ کی گفتگو سے لگ رہا ہے پارٹی سے انحراف غلط کام نہیں۔

اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ شاید میں اپنی بات سمجھا نہیں سکا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک نکتۂ نظر تو یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جمہوریت کا حصہ ہے۔دوسرا نکتۂ نظر یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف جان بوجھ کر دیا گیا دھوکہ ہے۔ آرٹیکل 63 اے پارٹی سے انحراف کو غلط کہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پارٹی سے انحراف کیا اتنا غلط ہے کہ تاحیات نااہلی ہو؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ صدر کے بقول سینیٹ الیکشن میں غلط کام ہوا اور شواہد بھی ہیں۔ اس بارے میں صدر اور وزیرِاعظم کو ہارس ٹریڈنگ کا علم تھا لیکن کوئی کارروائی نہیں کی۔

جسٹس اعجاز نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں پیسوں کے لین دین کا ذکر تھا۔ پیسوں کے معاملے میں ثابت کرنا لازمی ہونا ہے۔آرٹیکل 63 اے میں کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ الیکشن پر آرٹیکل 63اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

اس دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید کھڑے ہوئے اور کہا کہ مفروضے پر بات کررہا ہوں اگر ایک ممبر اپنے ضمیر پر ووٹ دیتا ہے تو وہ ڈی سیٹ ہو گا۔صرف چار شرائط پر عمل کرنے کے بعد ہی 63 اے لگے گا۔

آرٹیکل 63 اے کے نتائج آئین میں موجود، آگے نہیں جاسکتا: مخدوم علی خان

بینچ کے رکن جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں ممبر ووٹر کے طور پر ووٹ ڈالتا ہے۔ اگرچہ سینیٹ الیکشن میں بھی پیسے لے کر ووٹ ڈالنا جرم ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 63اے کے مطابق پارٹی سربراہ انحراف کا ڈیکلریشن دیتا ہے۔کہیں نہیں کہا گیا کہ بغیر سنے نااہلی ہو گی یا موقع نہیں دیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اس دفعہ ہارس ٹریڈنگ تو نہیں ہو رہی پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ ماضی میں کیا کیا گیا؟ انحراف کرنے والے واپس اپنی پارٹیوں میں واپس لیے جاتے رہے ہیں۔ممکن ہیں پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دینے والے کو پارٹی معاف کر دے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت آئین پر عمل درآمد کے لیے ہے۔آئین کے آرٹیکل کو مؤثر ہونا ہے۔سسٹم کمزور ہو تو آئین بچانے کے لیے سپریم کورٹ کو آنا پڑتا ہے۔

عدم اعتماد کی تحریک : اسلام آباد میں غیر یقینی کی صورت حال
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:23 0:00


جسٹس منیب نے کہا کہ پارٹی ووٹ ڈالنے سے روکے اور رکن ووٹ ڈال دے تو بات ختم ۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ اگر پالیسی کے خلاف ووٹ ڈالنے پر بات ختم ہوتی تو شوکاز کیوں دیا جاتا۔ عدالت منحرف ہونے کو گھناؤنا جرم قرار دے تو بھی وزیرِاعظم کی مرضی ہے کہ اس جرم پر ڈیکلریشن دے یا نہ دے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ منحرف رکن کہہ سکتا ہے کہ وزیرِِاعظم کے منشور کے خلاف کسی اقدام پر ووٹ نہیں دوں گا۔منحرف رکن کہہ سکتا ہے اسمبلی میں تھا لیکن ووٹ نہیں ڈالا۔

جسٹس منیب نے سوال کیا کہ کیا کامیابی کے بعد سیاسی جماعت میں آنے والے پر آرٹیکل 63 اے لاگو نہیں ہوتا؟ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ کوشش کروں گا بعد میں اس سوال کا جواب دوں ۔آزاد امیدوار کا پارٹی میں شامل ہونا ووٹرز کے ساتھ بے وفائی ہے، برطانیہ میں وزیرِاعظم منشور تبدیل کرنے کے لیے بھی عوام سے رجوع کرتا ہے۔

مخدوم علی خان کے دلائل جاری تھے کہ عدالتی وقت ختم ہونے پر سماعت پیر ایک بجے تک ملتوی کردی گئی۔ مخدوم علی خان کے دلائل کے بعد پیپلز پارٹی کے فاروق ایچ نائیک، پی ٹی آئی کے علی ظفر اور رضا ربانی بھی دلائل دیں گے۔

حکومتِ نے آرٹیکل 63 اے میں نااہلی کی مدت کے تعین اور اس کی مزید تشریح کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے جہاں اس کیس کی سماعت جاری ہے۔

XS
SM
MD
LG