رسائی کے لنکس

ارشد شریف پر تشدد کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ ہی تردید: سربراہ پمز اسپتال


پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے سربراہ نے تصدیق کی ہے کہ کینیا میں مبینہ طور پر قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کے جسم پر 10 سے 12 نشانات ہیں۔ تاہم اُن کے بقول اُن پر تشدد کی تصدیق کینیا سے آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی ممکن ہو سکے گی۔

وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے پمز کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کے فارنزک تجزیے کے لیے مختلف نمونے حاصل کیے گئے تھے۔

اُن کے بقول ان سیمپلز کی مکمل رپورٹ آنے کے بعد ہی حتمی طور پر یہ پتا چلے گا کہ ارشد شریف پر تشدد ہوا تھا یا نہیں۔

ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ وہ جس سیٹ پر ہیں اس پر بیٹھ کر وہ نہ تشدد کی تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ ہی تردید۔

اُنہوں نے ارشد شریف کے ایک ہاتھ سے چار ناخن نکالے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں ہمیں کینیا سے آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔

خیال رہے کہ ارشد شریف کی میت پاکستان لانے کے بعد پمز اسپتال میں بھی اُن کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر خالد مسعود کا کہنا تھا کہ " کینیا سے آنے والی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی پتا چلے گا کہ یہ ناخن فارنزک کے لیے نکالے گئے ہیں یا واقعی ان پر تشدد ہوا ہے۔ـ"

ان کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ اہل خانہ کو دینے کے حوالے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ان کے اہل خانہ نے اب تک ہم سے رابطہ نہیں کیا۔ ہم نے ابتدائی رپورٹ اسلام آباد کے تھانہ رمنا کو فراہم کردی ہے ۔ اگر اہلِ خانہ ہم سے رابطہ کریں گے تو ہم انہیں لازمی یہ رپورٹ فراہم کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آئندہ چند دن میں فارنزک رپورٹ آنے کے بعد حتمی رپورٹ تیار کی جائے گی جو اہل خانہ اور مقامی پولیس کو فراہم کردی جائے گی۔

ڈاکٹر خالد مسعود نے کہا کہ ہم نے پروٹوکول کے مطابق سیمپلز لیے ہیں اور تھانے کے عملے کو یہ سیمپل فراہم کردیے گئے جنہوں نے پنجاب فارنزک ایجنسی کو یہ سیمپلز بھجوا دیے ہیں۔اب ایجنسی کی رپورٹ پولیس کو ملے گی جو وہ ہمیں فراہم کریں گے جس کے بعد اس رپورٹ کی روشنی میں حتمی رپورٹ تیار کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ اعضا کے نتائج تین سے پانچ دن کے وقفہ کے بعد ملتے ہیں اور ان سب کی مکمل رپورٹ آنے کے بعد ہی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ کہا جاسکے گا۔

ارشد شریف کے جسم پر تشدد کی تصاویر میڈیا پر لیک ہونے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ تصاویر پمز اسپتال سے ہی لیک ہوئی ہیں اور ہم انہیں لیک کرنے کے حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں۔ البتہ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پیمرا کو ایکشن لینا چاہیے اور معاملے کی حساسیت کے پیش نظر ان تصاویر کو ٹی وی پر چلانے کے حوالے سے ان چینلز کو روکنا چاہیے۔

کیا ارشد شریف کو کار میں بائیں جانب سے گولی ماری گئی تھی؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:43 0:00

کینیا جانے والی پاکستانی ٹیم کی تحقیقات

دوسری جانب اس کیس کے حوالے سے کینیا میں جا کر تحقیقات کرنے والی ٹیم نے اپنا بیشتر کام مکمل کرلیا ہے لیکن وزارتِ داخلہ مزید تحقیقات کے لیے ایک ٹیم کو دبئی بھجوا رہی ہے۔

جمعرات کی شب ;جیو' نیوز کے پروگرام 'آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ' میں گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ 10 اگست کو پاکستان سے دبئی جانے والے ارشد شریف کو 20 اگست کو کن حالات میں اور کن وجوہات کی بنا پر دبئی سے کینیا جانا پڑا۔

اُن کے بقول کہا جارہا ہے کہ وہاں انہیں چند افراد نے دبئی سے نکلنے کا کہا جس کے بعد ارشد شریف وہاں سے نکل گئے۔ اس حوالے سے چند افراد کے نام سامنے آرہے ہیں جن میں اے آروائے کے طارق وصی اور سلمان اقبال کا نام بھی سامنے آرہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کینیا میں موجود ارشد شریف کے میزبان خرم اور وقار کے حوالے سے تحقیقات بھی ہونا ضروری ہیں کیوں کہ جو کچھ بھی ارشد شریف کے ساتھ ہوا اس بارے میں خرم اور وقار لازمی طور پر آگاہ ہیں۔

رانا ثناء اللہ کے بقول یہ افراد آخری وقت تک ارشد شریف کے ساتھ تھے اور سب سے پہلی اطلاع طارق وصی کو دی گئی جس کے بعد پہلے حادثے کی خبر سامنے آئی اور اس کے بعد پولیس کی طرف سے قتل کی خبر سامنے آئی۔

انہوں نے کہا کہ خرم اور وقار کینیڈین نژاد اور ارب پتی شخصیات ہیں اور اب وہ پاکستانی حکام کے ساتھ بات چیت بھی نہیں کررہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا وکیل اس پر بات کرے گا۔

ارشد شریف کی ہلاکت کے حوالے سے رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ اب تک کی جو تحقیقات ہوئی ہیں اس کے مطابق یہ شناخت کی غلطی کا کیس نہیں بلکہ انہیں ٹارگٹ بنا کر قتل کیا گیا ہے۔

اس معاملے پر پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس آف پاکستان کو جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے خط لکھا ہے۔

صحافی ارشد شریف گزشتہ ماہ کینیا میں پرسرار حالات میں ہلاک ہوئے تھے اور ابتدائی طور پر پولیس نے اس معاملے کو شناخت میں غلطی کا معاملہ قرار دیا تھا۔

پاکستان میں بعض حلقے ارشد شریف کے مبینہ قتل کو پاکستان کے مختلف اداروں کے ساتھ منسلک کررہے ہیں تاہم پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر نے ایک نیوز کانفرنس میں ایسے کسی بھی الزام کی تردید کی تھی اور اس بارے میں ارشد شریف کے قریبی ساتھیوں بشمول اے آروائی چینل کے مالک سلمان اقبال سے تفتیش پر زور دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG