رسائی کے لنکس

کرونا وائرس کی ویکسین بننے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟


ہر دوا بیماری کے علاج کے لیے بنائی جاتی ہے، لیکن ویکسین اس لحاظ سے منفرد اور اہم ہے کہ وہ بیماری کو لاحق ہونے سے روکتی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا میں 26 بیماریوں کی ویکسینز دستیاب ہیں جبکہ 24 بیماریوں کی ویکسینز پر تحقیق جاری ہے۔ لیکن ان میں کوویڈ نائنٹین کا باعث بننے والے کرونا وائرس کی ویکسین شامل نہیں، کیونکہ اس کا معاملہ سب سے جدا ہے۔

عالمگیر وبا سے اب تک دنیا بھر میں ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوچکے ہیں، جبکہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 6 لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس قدر نقصان کی وجہ سے سب چاہتے ہیں کہ جلدازجلد اس کی ویکسین بنے اور ماہرین اس بارے میں خوش خبری سنائیں۔

عام لوگ وبا سے پریشان ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود کرونا وائرس کی ویکسین بننے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟ بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ ویکسین بن بھی پائے گی یا نہیں؟

اس کا جواب امریکہ میں وبائی امراض کے سب سے بڑے ماہر ڈاکٹر فاؤچی دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی ویکسین بننے کا سوال 'اگر' سے نہیں، 'کب' سے شروع ہوتا ہے۔ انھیں توقع ہے کہ سال کے آخر تک کوئی ویکسین بن جائے گی۔

ویکسین کیسے بنائی جاتی ہے؟

روایتی طور پر ویکسین بنانے کے چار طریقے ہیں۔ لائیو ویکسین میں وائرس کو کمزور کرکے شامل کیا جاتا ہے۔ ان ایکٹی ویٹڈ ویکسین میں مردہ وائرس ڈالا جاتا ہے۔ ٹوکسوئیڈ ویکسین میں وائرس کا کچھ حصہ ملادیا جاتا ہے۔ چوتھی قسم میں وائرس کے پروٹین ڈال دیے جاتے ہیں۔

ویکسین بنانے کے کئی جدید طریقے بھی ہیں جن میں وائرس کی جینیاتی مواد یعنی ڈی این اے یا آر این اے کو استعمال کیا جاتا ہے۔

جب انسان بیمار ہوتا ہے تو اس کے خون کے سفید خلیے اینٹی باڈیز بنانا شروع کردیتے ہیں جو بیماری سے لڑتے ہیں۔ قوت مدافعت زیادہ ہو تو بیماری کے خلاف کامیابی ملتی ہے ورنہ نقصان ہوجاتا ہے۔

ویکسین بھی بیماری کی طرح قوت مدافعت کو بیدار کرتی ہے۔ لیکن جراثیم مہلک نہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ انسان کے مدافعتی نظام کو کامیابی ملتی ہے۔

اکثر اوقات ویکسین کی ایک خوراک بیماری سے بچانے کے لیے کافی نہیں ہوتی اور اسے وقفے وقفے سے کئی بار لگوانا پڑتا ہے۔

ویکسین بنانے میں زیادہ وقت کیوں لگتا ہے؟

ویکسین یا کوئی بھی دوا بناتے ہی عوام کو پیش نہیں کی جاتی۔ پہلے کئی مرحلوں میں اس کی آزمائش کی جاتی ہے اور انسانی صحت کے لیے ہر طرح سے محفوظ ہونے کا اطمینان کرنے کے بعد اسے بازار میں فروخت کرنے اجازت دی جاتی ہے۔

عام طور پر نئی ویکسین کو پہلے کسی جانور پر آزمایا جاتا ہے۔ تسلی بخش نتائج ملنے پر صحت مند رضاکاروں کے ایک مختصر گروپ، عام طور پر پچاس افراد، کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔ اگر مضر اثرات سامنے نہ آئیں تو دوسرے مرحلے میں نسبتاً زیادہ افراد کو، عموماً کئی سو افراد کو، ویکسین دی جاتی ہے۔

تیسرے مرحلے میں اسے وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے اور دسیوں ہزار افراد کو اس آزمائش میں شریک کیا جاتا ہے۔ اگر ہر عمر، نسل اور خطے کے لوگوں کو اس سے یکساں فائدہ ہو تو پھر اس کی منظوری دے دی جاتی ہے۔

معمول کے حالات میں کوئی ویکسین بنانے میں 8 سے 15 سال کا عرصہ لگتا ہے۔ اب تک جو ویکسین سب سے جلدی بنائی گئی ہے، اس میں بھی 5 سال لگے تھے۔ لیکن عالمگیر وبا کے جانی اور معاشی نقصانات کی وجہ سے ماہرین نے اپنا کام انتہائی تیز کردیا ہے۔

کرونا وائرس کی ممکنہ ویکسینز کی آزمائش 12 سے 18 ماہ میں مکمل ہوجانے کی توقع ہے۔ چونکہ یہ کام جنوری میں شروع کردیا گیا تھا اس لیے ماہرین امید کررہے ہیں کہ اس سال کے آخر یا نئے سال کے آغاز تک ویکسین دستیاب ہوجائے گی۔

ویکسین کے لیے کتنی رقوم مختص کی گئی ہیں؟

دنیا بھر میں کرونا وائرس کی ممکنہ ویکسینز کے لیے اربوں ڈالر مختص کیے گئے ہیں، تاکہ تحقیق اور آزمائش میں رکاوٹ نہ آئے اور جلدازجلد یہ کام مکمل کرلیا جائے۔ ان میں امریکہ سرفہرست ہے جس نے آپریشن وارپ اسپیڈ کے نام سے اربوں ڈالر کا منصوبہ شروع کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 18 دواساز اداروں سے تعاون کیا جارہا ہے اور انھیں مختلف رقوم دی جارہی ہیں۔

امریکی انتظامیہ نے فائزر اور بایو این ٹیک کو ایک ارب 95 کروڑ ڈالر، نوواویکس کو ایک ارب 60 کروڑ ڈالر اور آسٹرازینیکا کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر فراہم کیے گئے ہیں۔ دوسری کمپنیوں کو بھی کروڑوں ڈالر دیے گئے ہیں جن میں جانسن اینڈ جانسنز، موڈرنا، ایمرجنٹ بایوسولوشنز اور ریجینیرون فارماسیوٹیکلز شامل ہیں۔

یہ رقم گرانٹ کے طور نہیں دی جارہی بلکہ ممکنہ ویکسین کی کروڑوں خوراکوں کا معاوضہ ہے۔ ان کے ساتھ یہ یقین دہانی بھی حاصل کی جارہی ہے کہ ویکسین بننے کے بعد اسے سب سے پہلے امریکی عوام کو دیا جائے گا۔ امریکی انتظامیہ اپنے عوام کو ویکسین مفت فراہم کرے گی۔

اس بات کا امکان موجود ہے کہ ویکسین بننے کے بعد اس کی قیمت زیادہ ہو اور غریب ممالک اپنے تمام شہریوں کے لیے اسے حاصل نہ کرسکیں۔ اس خدشے کے پیش نظر عالمی ادارے گیوی ویکسین الائنس کے اجلاس میں عطیہ دینے والے ملکوں، اداروں اور فلاحی تنظیموں نے لگ بھگ 9 ارب ڈالر کی رقوم کے وعدے کیے تاکہ ویکسین بن جائے تو اسے غریب ملکوں کو فراہم کیا جاسکے۔

برطانیہ نے اس مقصد سے 2 ارب ڈالر اور بل اینڈ امینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے ایک ارب 60 کروڑ ڈالر دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

کرونا وائرس کی زیادہ ویکسینز کیوں بنائی جارہی ہیں؟

نیویارک ٹائمز کے مطابق، دنیا بھر میں 165 سے زیادہ ممکنہ ویکسینز پر کام جاری ہے۔ عالمی ادارہ صحت کو ان میں سے 70 کا علم ہے جبکہ ریگولیٹری افیئرز پروفیشنلز سوسائٹی کی ویب سائٹ پر 41 ممکنہ ویکسینز کی تفصیلات موجود ہیں جن میں سے چند تحقیق کے ابتدائی مرحلے ہیں۔

متعدد پری کلینیکل یا پہلے مرحلے کے کلینیکل ٹرائل میں ہیں۔ صرف تین ممکنہ ویکسینز ایسی ہیں جن کی تیسرے مرحلے کی آزمائش شروع ہونے والی ہے۔

اس وقت امریکہ میں چار، چین میں چھ، آسٹریلیا میں تین، جرمنی میں دو، برطانیہ، روس اور جنوبی کوریا میں ایک ایک ویکسین کی آزمائش جاری ہے۔

میساچوسیٹس کی کمپنی موڈرنا کی ویکسین کا آخری مرحلہ جولائی کے آخر میں، آکسفرڈ یونیورسٹی اور آسٹرازینیکا کی ویکیسن کا آخری مرحلہ اگست میں اور فائزر اور بایو این ٹیک کی ویکسین کا آخری مرحلہ ستمبر میں شروع کیا جائے گا۔

کسی بھی بیماری کی ویکسین کے لیے کئی ادارے بیک وقت کام شروع کر سکتے ہیں، لیکن کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا میں پھیلنے کی وجہ سے زیادہ ممالک اور ادارے اس ویکسین کو بنانے کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔ ان میں سے بعض کمپنیاں دوسروں سے پہلے ویکسین مارکیٹ کرکے زیادہ منافع کمانا چاہتی ہیں۔

ضروری نہیں کہ تمام ویکسین کامیاب ہوجائیں اور انھیں مارکیٹ کیا جاسکے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سی ویکسینز آزمائش میں ناکام ہوجائیں گی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ابتدائی ویکسینز کی کامیابی کے بعد باقی پر کام درمیان میں چھوڑ دیا جائے۔

ویکسین بننے کے بعد عوام کو کب مل سکے گی؟

ویکسین بنانا اور طرح کا کام ہے اور اس کی وسیع پیمانے پر پیداوار یقینی بنا کر عوام تک پہنچانا مختلف کام۔ کوئی ایک کمپنی اتنی بڑی تعداد میں ویکسین نہیں بنا سکتی کہ اسے چند ماہ میں پوری دنیا کی آبادی کو فراہم کیا جاسکے۔

دوا ساز کمپنیاں دعویٰ کررہی ہیں کہ ان کی ویکسین کو منظوری ملی تو وہ چند ماہ میں کئی کروڑ خوراکوں کی پیداوار کرنے کے قابل ہوں گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ویکسین کو منظور کیے جانے کے بعد ترقی پذیر ممالک کے عوام تک پہنچنے پہنچے ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔

اسی لیے ماہرین کی خواہش ہے کہ ایک ساتھ کئی ویکسینز کامیاب ہوجائیں گے اور مختلف خطوں کے لوگوں کے لیے مختلف ویکسینز کی دستیابی ممکن ہوجائے۔

کیا ویکسین بننے کے بعد کرونا وائرس ختم ہوجائے گا؟

یہ کہنا مشکل ہے کہ کوویڈ نائنٹین کا سبب بننے والا کرونا وائرس کبھی ختم ہوسکے گا۔ خیال یہ ہے کہ اگر تمام بیمار افراد کو قرنطینہ کردیا جائے اور وائرس کا پھیلاؤ سو فیصد روک دیا جائے تو بیماری ختم ہوجائے گی۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ انفلوئنزا جس کرونا وائرس سے ہوتا ہے، وہ ہر سال صورت بدلتا ہے اور موسم سرما میں پھیلنا شروع ہوجاتا ہے۔

بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ ویکسین بننے کے بعد بھی کرونا وائرس موجود رہے گا اور شدت کم ہونے کے بعد بھی انسانوں کو پریشان کرتا رہے گا۔

XS
SM
MD
LG