رسائی کے لنکس

صحافیوں کو دھمکیوں اور قاتلانہ حملے پر اظہارِ تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

انسانی حقوق کی موقر تنظیم نے پاکستان کے شمال مغرب میں ایک صحافی کے قتل اور وسطی شہر لاہور میں ایک صحافی کو دھمکانے اور مبینہ طور پر حملے کا نشانہ بنائے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکام پر زور دیا ہے کہ وہ ان دونوں واقعات کے ذمہ داران کو گرفتار کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کریں۔

اتوار کی صبح نامعلوم مسلح افراد نے ہری پور میں ایک اردو اخبار کے نامہ نگار بخشیش الہی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ جب کہ گزشتہ جمعے کو لاہور میں انگریزی اخبار 'ایکسپریس ٹربیون' کے چیف رپورٹر رانا تنویر کو بظاہر گاڑی تلے کچلنے کی کوشش کی گئی تھی۔

پیر کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ایسے میں جب ہری پور میں حکام بخشیش الہی کو اس مہلک حملے سے بچانے میں ناکام رہے وہیں رانا تنویر کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ بھی اتنا ہی تشویش ناک ہے۔

رانا تنویر گاڑی کی ٹکر سے زخمی ہوگئے تھے اور اس وقت اسپتال میں زیر علاج ہیں۔

ایچ آر سی پی کا کہنا تھا کہ رانا تنویر اپنی بامقصد خبر نگاری کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں اور بظاہر مذہبی اقلیتوں کے خلاف ہونے والے تشدد پر لکھنے کی وجہ سے انھیں جان سے مار دینے کی دھمکیاں دی جاتی رہی ہیں۔

تنظیم نے بیان میں مزید کہا کہ لاہور میں صحافی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں پولیس کو مطلع کیے جانے کے باوجود اس بارے میں رپورٹ درج نہیں کی گئی جو کہ اپنی جگہ ایک اور تشویش ناک امر ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ رانا تنویر کو چند سال قبل مختلف مواقع پر دھمکی آمیز فون کالز موصول ہونا شروع ہوئی تھیں جب کہ ان کے گھر کے باہر ایسی ہی دھمکیوں پر مبنی عبارت بھی تحریر کی گئی تھی۔

رانا تنویر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کے لیے صورت حال مزید مشکل ہوتی جا رہی ہے۔

"ہمارے جو قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں میرا مطلب پولیس، اس کا بھی بہت قصور ہے کیونکہ جب تاخیر کرتے ہیں تو قصورواروں کا حوصلہ بڑھتا ہے اور پھر جب انھیں (پولیس کو) پتا ہوتا ہے کہ کوئی مذہبی معاملہ ہے تو وہ ویسے ہی اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب تک یہ اس سے بچتے رہیں گے تو ایسے عناصر کے لیے سزا سے بچنے والی بات ہو جاتی ہے، تو پھر وہ جو مرضی کرتے پھریں۔"

پاکستان کا شمار صحافیوں کے لیے خطرناک تصور کیے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے جہاں ایک دہائی سے زائد عرصے میں 100 سے زائد صحافی مارے جا چکے ہیں۔

انسانی حقوق اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی مقامی و بین الاقوامی تنظمیں یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ پاکستان میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے موثر اقدام کیے جائیں اور صحافتی شعبے سے وابستہ افراد پر حملوں میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کو بھی یقینی بنایا جائے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی پیر کو اپنے بیان میں حکام پر زور دیا کہ ذمہ داران کو گرفتار کرنے کے لیے تمام ممکن اقدام کیے جائیں اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو تنظیم کے بقول اس سے نہ صرف ایسے عناصر کو شہ ملے گی بلکہ معاشرے کو پہلے سے زیادہ ضروری صحافتی خدمات کی انجام دہی کے دوران صحافی خود سے ہی اپنے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی خبروں کو جاری کرنے سے گریز کر سکتے ہیں جن سے ایسے عناصر برہم ہوتے ہوں۔

بخشیش الہی کے قتل پر صحافی سراپا احتجاج
بخشیش الہی کے قتل پر صحافی سراپا احتجاج

دریں اثنا صحافی بخشیش الہی کے قتل کے خلاف پیر کو اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب کے سامنے صحافتی تنظیموں نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جس میں ایک بار پھر صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے اور مہلک واقعات کے ذمہ داران کو قانون کی گرفت میں لانے کا مطالبہ کیا گیا۔

حکومتی عہدیداران کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کی نمائندہ تنظیموں سے مشاورت کے ساتھ ایسے اقدام کر رہے ہیں کہ جس سے اس پیشے سے وابستہ افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی بہبود کے لیے بھی کام ہو سکے۔

XS
SM
MD
LG